ملکی سیاست اس موڑ سے گزر رہی ہے جہاں فیصلہ نہ ضمیر کے ہاتھ میں ہے اور نہ قانون کے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت فیصلہ وہ سرمایہ کر رہا ہے جو کرپشن سے اکٹھا کیا گیا ہے۔ وہ اردو شعر اس وقت اس قدر حالات کی سچائی کا آئینہ نہ تھا جس قدر آج ہے جس میں ایک شاعر نے کہا تھا کہ یہ بہت آسان کھیل ہے؛ رشوت لیکر جیل جاؤ اور رشوت دیکر چھوٹ جاؤ! ملکی سیاست میں جو کردار عوام کا تھا اب وہ پیسہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ہتھیار بھی سیاست میں اس حد تک کارگر نہیں رہا جس قدر سرمایہ ہے۔ جس کے پاس سرمایہ ہے اس کو جپھیاں مارنا ایک ایسا وطیرہ بن گیا ہے جس کو کسی بھی کورٹ آف لا میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سرمائے کی ترقی ہے یا سچائی کا زوال؟ پہلے لوگ بندوق سے ڈرتے تھے اور اب وہ دولت سے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دولت ایک ایسی چابی بن گئی ہے جو ہر تالے کو کھول سکتی ہے۔ پھر وہ دولت امریکہ کی ہو یا چین کی! پھر وہ دولت نواز شریف کی ہو یا زرداری کی! اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس دور میں جعلی ڈگریوں کا شور مچا ہوا تھا اس وقت بلوچستان کے سابق چیف منسٹر نے کتنے پتے کی بات کہی تھی کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے؛ وہ اصلی ہو یا جعلی! ٹھیک اسی طرح سرمایہ بھی سرمایہ ہے۔ وہ ایمانداری سے کمایا گیا ہو یا بے ایمانی سے! ملک کے موجودہ حالات میں اس سوال سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سیاست جس کو عوام کو انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ سیاست جس کی وجہ سے ہم دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ جب وہ پیسوں پر اپنے آپ کو بیچنے لگے تو پھر ملک کا کیا ہوگا؟ آج غیرقانونی سرمایہ سیاست کو خرید رہا ہے۔ سوال ہمارے ماضی کا ہے۔ سوال ہمارے مستقبل کا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس لیے قربانیاں نہیں دیں کہ ان کی محنت کو خرید و فروخت کے لیے بازار میں لایا جائے اور ہماری آنے والی نسل کل ہم سے پوچھے گی کہ جس وقت ہماری سرزمین کو سرمایہ نگل رہا تھا اس وقت تم کہاں تھے؟ سرمایہ تو آنے جانے والی چیز ہے مگر ملک آسانی سے نہیں بنتے! سیاست ہر چیز کو استعمال کرنے کے لیے تلی ہوئی ہے۔ جس طرح ایک انسان اپنے گاؤں سے پیار کرتا ہے۔ جس طرح ایک انسان کو اپنا شہر اچھا لگتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کو اپنے صوبے کی دھرتی اور اس کی ثقافتی روایات سے بھی فطری طور پر محبت ہوتی ہے اور اس محبت پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا مگر پاکستان کی سیاست میں عام طور پر چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر سندھ کو جس طرح بلیک میلنگ کا کارڈ بنا کر استعمال کیا گیا ہے وہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جب بھی ملکی سیاست میں کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تب ایک مخصوص جماعت سندھ کو کارڈ بنا کر پیش کرتی ہے۔ سندھ سرزمین ہے۔ سندھ پر اصل حق ان لوگوں کا ہے جو غریب ہیں۔ جو اس دھرتی پر صدیوں سے آباد ہیں اور اس دھرتی کے وسائل سے ان کے مسائل ختم نہیں ہوئے۔ مگر سندھ کو کارڈ بنا کر پیپلز پارٹی نے جس بھونڈے طریقے سے استعمال کیا ہے؛ اس پر سندھ کے ادیبوں اور شاعروں کو ’’توہین سندھ‘‘ کا مقدمہ بنانا چاہئیے۔ کیوں کہ سندھ دھرتی ہے۔ سندھ ایک خوبصورت نام ہے۔ اس نام کو سیاسی طور پر استعمال کرنا اور اس سیاست میں استعمال کرنا جو مکر و فریب سے بھری ہوئی ہے۔ جو بہت بری ہے۔ کیا ایسا عمل سندھ کی توہین نہیں ہے؟ پی پی قیادت کے بارے میں پہلے سندھ ؛ پھر پاکستان اور اب پوری دنیا میں مشہور ہے کہ وہ کسی بھی چیز پر قبضہ کرنے کے لیے ’’بھٹو اور سندھ‘‘ کے نام کی تختی لگا دیتے ہیں اور اس نام کے پیچھے وہ اپنا مخصوص کاروبار کرتے ہیں۔ اس وقت بشمول سندھ ملک کا ضمیر سراپا سوال ہے کہ کیا اسلام آباد میں ’’سندھ ہاؤس‘‘ اس لیے بنایا گیا تھا کہ اس کو ہارس ٹریڈنگ کا مرکزبنایا جائے۔ کرپشن نواز شریف نے بھی کی اور ہارس ٹریڈنگ میں نام اس نے بھی کمایا مگر اس کی اس بات کی تعریف کرنا جائز ہے کہ اس نے خرید و فروخت کے لیے ’’پنجاب ہاؤس‘‘ کو استعمال نہیں کیا۔ اس نے اس غلط کام کے لیے چھانگا مانگا کو استعمال کیا مگر یہاں صاحب کے لیے مشہور ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لیے غلط کام بھی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اسلام آباد میں بیٹھ کر اسلام آباد کی سیاست کو اپنے مفاد میں تبدیل کرنے کے لیے تحریک انصاف کے ان ایم این ایز کو سندھ ہاؤس میںٹھہرایا جو سرمائے پر اپنی سیاسی وفاداری بیچنے کے لیے تیار تھے۔ حکومت کو غلط اور غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے گرانے کے لیے جب ایسے طریقے استعمال کیے جائیں تب حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس جگہ پر چھاپہ مارے جہاں ان کے وہ ممبر بکنے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہوں؛ جن کو نہ صرف پارٹی ٹکٹس د یے گئے بلکہ ان کی کامیابی کے لیے پارٹی کارکنوں نے نعرے لگائے اور پارٹی قیادت نے چیخ چیخ کر تقاریر کیں۔ جب وہ ممبران کامیاب ہونے کے بعد کروڑوں روپیوں کی وجہ سے ان کارکنوں کے جذبات کو کچلنے کی کوشش کریں تو کیا ان کو غصہ نہیں آئے گا؟ اگر اس غصے میں کوئی اس مقام پر احتجاج کرتا ہے جہاں ضمیر کی خرید و فروخت ہو رہی ہے تو کیا اس مقام کی توہین ہوگی؟ بلاول نے اپنے والد کی راہ لی ہے اور وہ سندھ ہاؤس پر کیے گئے احتجاج کو نہ صرف سندھ ہاؤس بلکہ سندھ پر حملہ تصور کر رہے ہیں۔ جب کہ اس بات پر شرمساری کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت ہی سوری کہنا چاہئیے تھا جب ملکی میڈیا پر ضمیر بیچنے والے ایم این ایز سندھ ہاؤس میں دکھائے گئے۔ مگر ملکی سیاست سے حیا نے تو کب سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ جب تحریک انصاف کے کارکنان سندھ ہاؤس پر احتجاج کرتے ہیں تو ان کو سنا جانا چاہئیے اور اس عمل کو بہتر بنانا چاہئیے جس عمل کی وجہ سے ایک اچھا مقام بدنام ہوتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کے لوٹوں کو چھپانے کے لیے سندھ ہاؤس کے استعمال پر افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے سندھ ہاؤس کا تقدس پائمال کرنے کا کیس بنا کر سندھ کارڈ کو بہت ہی بھونڈے انداز سے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت ملکی حالات کو اس موڑ پر پہنچایا گیا ہے کہ اگر ملک پر لگا ہوا جمہوریت کا بورڈ ہٹا کر کوئی اور بورڈ آویزاں کیا جاتا ہے تو اس افسوسناک عمل پر کسی کو غصہ کم اور غم زیادہ ہوگا۔ جب اپنے مفادات کے لیے ملکی اور عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے تو پھر ایسے عمل کے ایسے ہی نتائج نکلتے ہیں۔ ہم ایسے سیاسی گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو یہ دعا مانگنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے کہ خدایا ہمارے سیاسی حالات پر رحم فرمائے۔