برادرِ کل کلاں… جیسا کہ ذکر ہو چکا،ہم نے شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایسے عالَم میں آنکھ کھولی جسے بلا جبر و اِکراہ نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری مجبوری یہ کہ پیدا ہوتے ہی ہمیں ’چھوٹے بھائی‘ کے درجے پر فائز کر دیا گیا۔ قصور ہمارا صرف اتنا تھا کہ ہم نے پیدا ہونے میں ذرا سی سُستی سے کام لیا تھا۔ ہم سے دو سال قبل دنیا میں ورود کرنے والا بھائی محض اپنی جلد بازی کی بنا پر ’بڑا ‘ بن بیٹھا۔ شاید یہاں بڑا بننے کی یہی اکلوتی شرط ہے۔ یہ تو ہمیں بہت بعد میں علم ہوا کہ یہ سُستی صرف ہماری پیدائش ہی میں نہیں، رفتار اور مزاج میں بھی ہے۔ آج یار لوگ جو پی ایچ۔ڈی دو ڈھائی سال میں سُڑک جاتے ہیں، مَیں نے ۲۰۰۳ء میں اسے آٹھ برس کی مشقت کے بعد مکمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یار لوگوں نے ہمیشہ ہمیں کچھوا قبیلے کا فرد ہی گردانا۔ یہ بات بھی مجھے بڑی دیر کے بعد سمجھ میں آئی کہ میری ایم اے کی کلاس کی ایک ذہین اور حسین لڑکی جب بھی میرے سامنے میرے گاؤں کا ذکر کرتی، یہی کہتی: مجھےTortoise دیکھنے کا بہت شوق ہے۔گویا وہ بھی باتوں باتوں میں مجھے کچھوا ہونے کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ کچھوے کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کے سامنے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا تو کجا، ڈھنگ سے جھک بھی نہیں سکتا، کیونکہ جھکنے کے لیے زمین سے تھوڑا بہت اوپر اٹھنا بہرحال ضروری ہوتا ہے۔ اوپر والوں کو یہ سہولت اور رعونت تو بہرحال حاصل ہوتی ہے کہ وہ جہاں چاہیں ماتھا رگڑیں، جہاں ضرورت محسوس کریں پیٹھ … اور کامیابیوں پہ کامیابیاں حاصل کرتے چلے جائیں، بقول سید محمد جعفری : جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں ہم خودی کو بلند کرتے رہے میری زندگی میں پہلا خرگوش میرا اکلوتا بڑا بھائی تھا، جو عمر میں دو سال بڑا ہونے ہی کو بزرگی کے لیے کافی سمجھتا تھا۔ ہماری پیدائش کے تین سال بعد ہی محترم بڑے بھائی نے چھوٹے ہونے کی عیاشی بھی ہم سے چھین لی۔ وہ تھے تو میرے برادرِ کلاں لیکن رفتہ رفتہ اہلِ خانہ سے اتنے دُور اور دل برداشتہ ہو چکے تھے کہ مجھے تو وہ برادرِ کل کلاں محسوس ہوتے تھے۔ پچھلے دنوں مَیں نے بھارتی فکشن نگار انیس اشفاق کا ناول ’دُکھیارے‘ پڑھا تو یقین جانیں اس میں مذکور بڑے بھائی میں مجھے ساٹھ ستر فیصد اپنا یہی بھائی نظر آیا۔ مجھے یوں لگا جیسے لکھنو کا شہری کلچر پنجاب کی دیہاتی زمین سے نمودار ہو گیا ہے۔ کچھ عرصہ توہم جیسے کودکِ بے وقت و بے وقعت کو کلاس، سکول، ماسٹر، احباب، فیملی، کسی طرف سے درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔ صرف ایک تبدیلی کہ کلاس میں ایک رول نمبر کا اضافہ ہو گیا۔ اس انجان، نادان کا پہلی بار نوٹس اس دن لیا گیا جب اس گھُنے، میسنے نے تیسری جماعت کے سالانہ امتحان میں دن دیہاڑے، چھوٹوں والے تمام آداب، لحاظ، رکھ رکھاؤ کو پسِ پشت ڈالتے، جملہ بزرگ بچوں کے بیچوں بیچ کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کر ڈالی۔ ماسٹر نے کلاس میں شیخ سعدی کا ایک جملہ بولا: ’ہر چہ بقامت کہتر، بقیمت بہتر‘ جو اُس وقت تو ظاہر ہے سر کے اوپر سے گزر گیا لیکن رفتہ رفتہ بدلتے رویے، اس جملے کے مثبت ہونے کی واضح دلیل تھے۔ یوں سمجھ لیں کہ اُس وقت سکول اور پورے گاؤں میں ہماری کیفیت اچانک فیصل عجمی کے اس شعر والی ہو چکی تھی: ہو گئی شام تو کشکول اُلٹ کر دیکھا اتنے سِکے تھے کہ لوگوں نے پلٹ کر دیکھا اور پھر پانچویں جماعت تک آتے آتے تو ہمارا جھاکا اس قدر کھل چکا تھا کہ بظاہر کچھوا نظر آنے والے اس طفلِ مکتب نے قریبی گاؤں جودھکے میں منعقد ہونے والے تیرہ پرائمری سکولوں کے مشترکہ سالانہ امتحان کے برگد کہ جسے اس زمانے میں سنٹر کا امتحان کہا جاتا تھا، کو خرگوش کی رفتار سے جا لیا تو لوگوں کے کان، گمان، دھیان کا کھڑا ہونا فطری تھا۔ بڑے بھائی نے تو اسے باقاعدہ بدتہذیبی قرار دے ڈالا۔ ان کی تعلیم سے مستقل بے زاری سے لگتا تھا کہ انھوں نے اس بدتمیزی کو کبھی معاف نہیں کیا۔ چھوٹی بیٹی ارفع کے بقول: ’اس کا بدلہ انھوں نے اس طرح لیا کہ آپ کو تمام عمر چچا نہیں بننے نہیں دیا اور خود بغیر شادی کے تایا بن گئے۔‘ ساتویں جماعت میں تو ہمارے ستواں و سریع تعلیمی تیور دیکھ کر بڑے نے گھر میں یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ ’چھوٹے کو ہر معاملے میں چھوٹا ہی رہنا چاہیے۔‘ چھوٹا اس پر بھی اپنے موہوم مقاصد سے باز نہ آیا تو اس نے اپنا باقاعدہ احتجاج فیل ہو کر ریکارڈ کرایا۔ ساتھ ہی گاؤں میں اپنی تعلیمی جدوجہد کی تکمیل کا سرِ عام اعلان بھی کر دیا۔ ریاضی ایجاد کرنے اور انگریزی کو نصاب میں شامل کرنے والوں سے متعلق انھوں نے جو جو ملفوظاتِ عالیہ ارشاد فرمائے وہ غیر نصابی اور ورائے اخلاقیات ہونے کی بنا پر یہاں جگہ نہیں پا سکتے۔ بھائی کی فاضل ظرفی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب زمین بیچ کے (یاد رہے زمین کے پہلے دو ایکڑ موصوف نے مبلغ دس دس ہزار روپے، جن کے نصف بھی دس ہزار ہی ہوتے ہیں، میں فروخت کیے تھے۔ اور بیس ایکڑ کا آخری دانہ غالباً ایک لاکھ روپے میں)پیسے جیب میں آئے تو زرعی بنک سے قسطوں پہ نیا فیٹ ٹریکٹر لے لیا۔ پھر اس ٹریکٹر پہ جاپانی سپیکروں والا وہ ڈیک نصب کرایا جو بعض مرسڈیز والوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔ مقصد اس کا صرف آس پاس کے دیہات اور آتے جاتے مسافروں کو فنِ موسیقی سے بلند آہنگی کے ساتھ مستفید و روشناس کرنا تھا۔ گھر میں برادرانِ یوسف نما کے درمیان پرانی کتابوں اور نئی نئی کیسٹوں کا مقابلہ جاری رہا، جس میں بار بار دَھنوان کو شان دار فتح اور نِردھن کو سرِ عام عبرت ناک شکست ہوتی رہی۔ دنیائے موسیقی کی مزید سرپرستی فرمانے کے لیے موصوف نے نہ صرف باقاعدہ ہارمونیم خرید فرمایا، بلکہ موسم اور مزاج کے مطابق کئی استاد بھی بدلے گئے۔ بعد ازاں مٹھائی، مرغ، دستار جیسی جملہ دنیاوی رسومات کے ساتھ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی باقاعدہ شاگردی اختیار کی گئی۔ پھر کسی میوزک کمپنی سے اپنی ایک کیسٹ بھی ریکارڈ کروائی، جس کے آخری گیت کے بول مجھے اب تک یاد ہیں: ’محلّے سجناں دے چھوٹی جئی دُکان لبھ دے‘‘ لیکن مجھے اس بات کا بھی ٹھیک ٹھاک اندازہ ہے کہ اس وقت تک آتے آتے یہ اس کی شعری خواہش کم اور دنیاوی ضرورت زیادہ تھی۔ کیونکہ ان شہ خرچیوں سے اتنا تو ہوا کہ ٹریکٹر کی ہر نئی قسط کی ادائی پر ایک آدھ ایکڑ کی بلی چڑھانا پڑ جاتی۔ اپنے علیحدہ گھر کے لیے حصے میں آیا ہوا دو کنال کا پلاٹ بھی حضرت نے محض بیس ہزار (نصف جن کے پھر دس ہزار ہی ہوتے ہیں) میں فروخت کیا، جو اُس کی آخری جمع بلکہ طمع بلکہ قلع قمع پونجی تھی۔ اس کی دن دُگنی، رات چوگنی تنزلی کا پورا گاؤں گواہ ہے۔ میری ملازمت اور ترقیوںتک آتے آتے تو اس کا میرا رشتہ آئی ایم ایف اور موجودہ حکومت والا ہو چکا تھا، یعنی ہر ماہ امداد کی قسط جاری کروانے کے لیے وہ مجھے ’بھائی جان‘ کہنے تک اُتر آیا تھا۔ (جاری)