دراصل وشوا ہندو پریشد نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیتاؤں سے ہاتھ ملا کر رتھ یاترا کی تحریک منظم کی تھی تاکہ عوام میں جوش و جذبہ ابھرے اور ایودھیا کے مقام پر ایک مندر بنانے کے لئے عوام کی حمایت حاصل کی جائے۔ اس مقام کو انہوں نے رام کی جنم بھومی قرار دیا تھا۔ اس تحریک کا حتمی مقصد بی جے بی کی سیاست کو متحرک کرنے کے لئے حمایت حاصل کرنا تھا اور یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی۔ سومناتھ کے مقام سے رتھ یاتر ا کی ابتدائ￿ 1990میں ہوئی تھی۔ دوسرے جلوس 1992ئ￿ کا انجام بابری مسجد کی تباہی تھا جو ایودھیا میں واقع تھی۔ اس کا ناگزیر نتیجہ مختلف مقامات پر ہونے والے ہندو مسلمان فرقہ ورانہ دنگے ہوا جس کے تسلسل کا سب سے بڑا سانحہ 2002ء گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی تھا۔ قدیم زمانوں کی تحریروں میں یہ ذکر ملتا ہے کہ ہزار برس بیت جانے کے بعد عام خوشحالی کا رحجان ہندستانی سماج کی نچلی اکثریت میں مقبول تھا مگر اس رحجان میں صرف ہندو نہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مختلف فرقے باہم گتھے ہوئے تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ترغیب دیتے تھے نہ کہ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کی۔ اس تسلسل میں انہوں نے روایتی مذہب کے عقائد کے برعکس بالکل مختلف ادب اور عقائد کا نظام وضع کرلیا تھا۔ ان کی مقبول کہانیاں اور بیانات بھی محمود کے بارے میں دربار نواز بیانیہ نگاروں سے مختلف ہیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے نو آبادیاتی مورخوں (یعنی برطانوی و یورپی) نے ماضی کے صرف ان ہی فارسی بیانیوں پر ہاتھ صاف کیا ہے جن میں ان کے نقطہ ِ نظر کے مطابق بیانات ملتے ہیں۔ جیسے کہ ’’دی ہسٹری آف انڈیا ایز ٹو لڈ بائی اِٹس اْون ہسٹورینز‘‘ جس میں ایلیٹ اور ڈاؤسن نے لکھا ہے کہ اپنے اپنے مذہب کو سچا اور حتمی قرار دینا ہندستان کے ماضی کا نمایاں وصف تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ماضی کے عربی اور فارسی بیانات کے تراجم پیش کرنے کا ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ’’مسلمان بادشاہوں کا کردار ظالمانہ تھا۔ مسلمانوں میں قوت ِ برداشت نہیں تھی چنانچہ انہوں نے مندروں کو توڑا پھوڑا، بتوں کو پاش پاش کیا۔ لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پہ مجبور کیا اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا‘‘۔ اِس قسم کے یک طرفہ بیانات قلمبند کرنیکا مقصد ہندوؤں کو اِحساس دلانا تھا کہ برطانوی راج مسلمان راج کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے جہاں ہندو رعایا کو ہر قسم کی سہولت اور ہر طرح کے فائدے حاصل ہیں۔ فرشتہ کا جو ترجمہ ایلیٹ اور ڈاؤسن نے کیا ہے اس میں ہندستانیوں کو ہند کا جانشین، حم کی اولاد جو کہ نوح علیہ السلام کی اولاد ہے، بتایاہے اور اِسے بائبل کے ساتھ جوڑا ہے۔ اِس حوالے سے انگریز تاریخ دانوں کے علاوہ جس مورخ کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ البیرونی ہے۔ البیرونی کا یہ اقتباس کہ محمود نے جو تباہی مچائی تھی اس کے نتیجے میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو ناپسند کرنا شروع کردیا تھا۔ مگر ’ای ساچو‘ حصہ اول صفحہ 22پہ بیان کی گئی اِس حقیقت کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ البیرونی کے بارے میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ محمود کا مداح نہیں تھا اور بلاتکلف اس پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ہندستان میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں اس کا ذمہ دار محمود ہے۔ اِس کے زیر حوالہ اقتباس میں مزید سوالات کے تناظر میں زیادہ گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نوآبادیاتی قلمکار اس اقتباس کے دوسرے جز و صاف اڑا گئے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب وہ ہندوؤں کا حوالہ دیتا ہے تو اس کا تخاطب کس سے ہے؟ کیا ہندو سے اس کی مراد ہندستانی عوام ہیں یعنی الہند ک لوگ؟ کیونکہ اِس جملے اور لفظ ’الہند‘ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ وہ ہندستانی عوام تھے جن کو محمود کے حملوں کی تباہی کے زخم لگے تھے؟ یا صرف وہ تھے جو برہمنی دھرم کے پیروکار تھے؟ آخر الذکر کے بارے میں وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ ان میں سے سب ہندستان کے باشندے نہیں تھے۔ جولوگ ان حملوں سے متاثر ہوئے وہ اْتری پوربی علاقے کے لوگ ہونگے۔ ہندستان کے دوسرے بڑے حصوں پر ان حملوں کے اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے۔ ابتدائی زمانے کے بیانیوں اور ماخذ میں ’ہندو‘ کی اصطلاح ان لوگوں کے لئے استعمال ہوئی ہے جو ایک خاص حدود رکھنے والے جغرافیائی علاقے کے باشندے تھے۔ خود سرسید احمد خان نے بھی لفظ ’ہندو‘ کی یہی تشریح کی ہے۔ ہندوؤں سے اختلاف صرف ان معنوں میں تھا کہ اس سے مراد ترک تھے۔ مذہبی قسم ہونے کے تعلق سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔ سی۔ڈبلو۔ارنسٹ ’ہسٹری اینڈ پالیٹکس ایٹ اے ساؤتھ ایشن صوفی سنٹر‘ صفحہ 24پہ لکھتا ہے کہ اقتصادی حوالے سے محمود کے حملے ان علاقوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوئے تھے جہاں مندر تھے اور حملہ آور نے ان کو نشانہ بنایا تھا۔ سومناتھ تباہ بھی ہوا لیکن بہت جلد ہی وہ دوبارہ بن گیا تھا اور وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ دولت بھی پیدا کررہا تھا۔ پی۔بی۔ڈیسائی ’جینزم اِن ساؤتھ اِنڈیا اینڈ جینا، ایپی گریفس‘ کے صفحہ 82تا 124پہ لکھتا ہے کہ کشمیر کے کئی (ہندو) راجاؤں نے بھی مندروں کو لوٹا تھا جس کی ابتدائ￿ نویں صدی میں شنکر ورما نے کی تھی۔ کلہانہ کے بقول اس نے چونسٹھ مندروں کو لوٹا تھا۔ ایٹن نے ’ٹمپل ڈسٹرکشن اینڈ انڈو مسلم اسٹیٹس ان ایسیسنر آن اسلام اینڈ انڈین ہسٹری‘ صفحہ 94پہ تسلیم کیا ہے کہ مندروں پر حملہ اور بتوں پر قبضہ کی روایت کا سلسلہ اسلام کے آنے سے پہلے رہا تھا۔ مثلاََ بودھ سنگھ دولتمند ادارے تھے لیکن ان میں اتنی دولت نہیں تھی جتنی بعض مندروں میں تھی جن کو حکمراں اور ویاپارویں کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی اس لئے اسٹوپا (یعنی بودھ عبادت گاہیں) پر لالچی حکمرانوں نے توجہ نہیں دی تھی۔ محمود کے حملوں کے حوالوں سے ایک عظیم المیے کی جن یادوں کو زندہ کیا گیا پرانے زمانے کے ماخذ اور بیانیوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ یہ سب کچھ موجودہ زمانے کی پیداوار ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت و دشمنی کا یہ بیج گورنر جنرل ایلن برو نے بویا جس پر برطانیہ کے ایوانِ عام میں بحث ہوئی اور ایلن برو کو موردِ الزام بھی ٹھہرایا گیا مگر ہندستان میں برطانوی سامراج کو مضبوط کرنے کیلئے ایلن برو کے گناہوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ ایلن برو کے بوئے بیج سے جس پارٹی نے جنم لیا وہ آرایس ایس(سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی) شیو سینا اور کئی دھڑے ہیں جنہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج ڈال دی ہے۔ جب تک تاریخ سچائی پر نہیں لکھی جائے گی یہ فسادات جوں کے توں رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے وہ ’ہندوتوا‘ کے نظریے کو لے کر چل رہی ہے اور مسلسل سکیولر انڈیا کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ ’ہندوتوا‘ کا نظریہ ہی بھارت کی جان لے لے۔(ختم شد)