ولیم جونز کی تحریروں اور ایک صدی بعد کی مکس ملر کے کام میں یہی مشترک موقف پیش کیا گیا ہے کہ ہندستان پر مسلمانوں کا اقتدار شروع سے ہی اس وقت تک تسلسل کے ساتھ اپنی ہندو رعایا پر مظالم ڈھارہا تھا۔ دونوں نے اپنے دعوے کے حق میں کوئی دلیل یا شہادت پیش نہیں کی۔ دراصل گورنر جنرل لارڈ ایلن برو نے 1842میں سومناتھ مندر کے دروازوں کا شوشا چھوڑا تھا۔ اسے نہ جانے کس طرح معلوم ہوگیا تھا کہ صندل کی لکڑی سے بنائے گئے سومناتھ کے مندر کے دروازے محمود اپنے ساتھ غزنی لے گیا تھا۔ گورنر جنرل نے اپنی طرف سے یہ حکم جاری کردیا کہ ان دروازوں کو غزنی سے واپس سومناتھ لایا جائے۔ آرڈیوس اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 201پہ لکھتا ہے گورنر جنرل کو کب اور کہاں سے یہ اطلاع ملی تھی ا س کی کوئی وضاحت آج تک نہیں ملی۔ پروفیسر مالکم میپ کہتا ہے کہ ترکوں کے فارسی بیانیوں میں بھی اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ جان ولسن اور سر بارٹل فرئیر کے مطابق کسی بھی تاریخی بیانئے یا کتاب میں اِن دروازوں کا ذکر نہیں ملتا۔ جبکہ لارڈ ایلن برو نے اْتری اور پوربی ہندستان کے راجاؤں اور مہاراجاؤں کو بھی مخاطب کیا تھا اور ان کو موثر اندازِ بیان کے ذریعہ احساس دلایا تھا کہ سومناتھ مندر کے دروازوں کو توڑ کر محمود نے ہندوؤں کو بہت دکھ پہنچایا تھا چنانچہ ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اب اِس کا بدلہ لیں۔ راجاؤں اور مہاراجاؤں نے لارڈ ایلن کے اس بیان کا کوئی اثر قبول نہیں کیا تھا اور ہندوؤں نے تو بات کو سنی اَن سنی کردی تھی۔ حالانکہ آر۔ایچ کینڈی نے غزنی جاکر محمود کے مزار کا بھی دورہ کیا۔ اس نے 1840کی اپنی روپورٹ میں لکھا کہ یہ دروازے جو غالباََ صندل کی لکڑی سے بنے ہوئے تھے ایک آراستہ و پیراستہ ڈھانچے میں لگائے گئے جو پانچ سروں والے ستاروں پر مشتمل تھے۔ کینڈی اپنی رپورٹ ’نیریٹیوآف دی کیمپین آف دی آرمی آف دی انڈس اِن سندھ اینڈ کابول‘ جلد دوم صفحہ 59پہ لکھتا ہے کہ اِن دروازوں کو ہندستانی طرزِ تعمیر سے کوئی نسبت نہ تھی۔ سی میسن لکھتا ہے کہ محمود کا مزار ٹوٹ پھوٹ کر ویران ہوگیا تھا اور دروازوں کے صرف ٹکڑے رہ گئے تھے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ جب چنگیز خاں غزنی کو دھمکیاں دے رہا تھا تو محمود کے مزار پر مٹی کہ تہیں جما کر اسے چھپا دیا گیا تھا تاکہ وہ تباہ نہ ہو۔ بعد کے زمانے میں تیمور کے پوتے نے مزار کا پتہ لگالیا تھا، اس نے مٹی کی تہوں کو ہٹا کر مزار کی دوبارہ مرمت کرائی تھی۔ کیا اس تعمیر کے وقت مزار پر دروازے لگائے گئے تھے اور ان کو سومناتھ مندر کے دروازے کہا گیا تھا؟ دراصل ایلن برو کے بیانیہ کے بہت سیاسی مقاصد تھے جو اس نے حاصل کئے جن میں سب سے اہم مقصد ہندوؤں کو متحرک کرنا تھا تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی خلیج اور بڑھے اور اِس طرح ہندوؤں میں برطانوی راج سے وفاداری کا جذبہ پیدا ہو اور وہ برطانوی ہندستان کی فوج میں شامل ہونے لگیں۔ سومناتھ مندر کے دروازوں کے قصے کو گڑھنے، بڑھاوا دینے اور سیاست کا اَنگ بنانے کا کردار اٹھارویں صدی اور اس کے بعد کے نو آبادیاتی انگریز مورخوں اور حکام نے ادا کیا تھا۔ دوسرے انگریز لکھاریوں نے جیسے گبن اور الفنسٹون نے صرف اسلام کو بڑھاوادینے اور ہندوؤں کو مارنے کے حوالے سے محمود کے حملوں کا ذکر کیا ہے اور اسے ایک مذہبی جہاد کہا ہے۔ ان کے بقول محمود نے ہندستانیوں پر اسلام کے خادم ہونے اور بت شکن ہونے کی حیثیت سے دھاک بٹھائی تھی۔ دروازوں کا ذکر انہوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ اِس طرح لارڈ میکالے نے دیگر معاملات کے ساتھ اِس پہلو پر بات کرتے ہوئے اپنی رپوٹ ’دی گیٹس آف سومناتھ‘ مرتبہ جی ایم ینگ میں لکھا کہ ’ہمارے گورنر جنرل نے مسلمانوں میں ردِ عمل کو جان بوجھ کر ہوا دی ہے اور ہندوؤں کو جھنجھوڑکر ان کو بتایا ہے کہ آٹھ سو برس پہلے مسلمانوں نے ان کے بتوں کو رْسوا کیا تھا‘‘۔اِس جھوٹی کہانی کے متعلق سروپا گی گوپال نے اپنی کتاب ’سلیکٹڈ ورکس آف جواہر لال نہرو XVI(1)صفحہ 606پہ لکھا ہے کہ ہندستان کے پردھان منتری نہر و نے پاکستان کے پردھان منتری کو اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’افغانستان سے سومناتھ کے مندر کے دروازوں کو ہندستان پہنچانے کی ساری کہانی جھوٹی ہے اس میں ذرہ برابر بھی سچ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ دروازوں جیسی کوئی چیز افغانستان سے ہندستان کو بھیجی جانا تھی‘۔ سومناتھ پر محمود کے حملوں کے بارے میں برطانوی اہل الرائے کے جائزے اور تبصرے خیالی پلاؤ تھے اور ان کا صرف یہ مقصد تھا کہ ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت برپا ہو اور وہ ایک دوسرے سے لڑ مریں۔ اِسی لئے جان بوجھ کر لفظ ’ہندِستان‘ میں حرف ’و‘ کا اضافہ کرکے ’ہندوستان‘ کیا گیا تاکہ آج کے ہندواسے محض اپنا وطن سمجھیں۔ 1843ء میں رام کرشن وشواناتھ نے مرہٹی زبان میں لکھا تھا کہ محمود کا اصل مقصد ہندوؤں کو مسلمان بنانا قطعی نہیں تھا بلکہ ہندستان سے جتنی بھی ممکن ہوئی دولت لوٹنا تھا تاکہ اپنی مالی حالت مستحکم کرکے افغانستان میں اپنے حریفوں کو شکست دے سکے۔ کے این حالی نے 1878ء میں لکھا کہ محمود کی لوٹ مارکی وجہ سے ہندستان کے غریبوں کا استحصال ضرورہوا تھا مگر یورپ کی عیسائی قوموں نے جس دھڑلے سے لوٹ مار مچائی تھی اور خون بہایا تھا وہ محمود کے مقابلے میں کہیں زیادہ بدترین تھا۔ ان کی آزاد تجارت کی پالیسی نے ہندستان کے عوام کا خون نچوڑ لیا تھا۔ محمود کے حملوں سے متعلق معاملات کا ذکر پرانے حوالوں اور ماخذ میں نہیں ہے۔ ترکوں کے فارسی بیانیوں میں ان کا ذکر ہوا ہے۔ انیسویں صدی کے ایک موڑ پر جب یہ واقعہ انگریز حکام اور مورخوں کے ہاتھ لگا تو انہوں نے اِسے ایک خوفناک المیہ بنا کر پیش کیا۔ دراصل ترکوں کے فارسی بیانئے ترجموں کے ذریعہ پڑھنے والوں کے سامنے آئے وہ سب فرقہ وارانہ رنگ میں ہی رنگے ہوئے تھے مثلاََ جہاں اطبی لکھتا ہے کہ محمود نے یہ فرض خود پہ عائد کرلیا تھا کہ وہ ہر برس ہندستان کی مہم سر کرے۔ اس پیراگراف کا ترجمہ ایلیٹ اور ڈاؤسن نے اس طرح کیا ہے کہ ’سلطان ہر برس ہندستان آکر جہاد کرتا تھا‘۔ یہ ساری کہانی چونکہ انگریز حکام اور انگریزی مورخوں کی داستان تھی۔ اِس لئے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہر نے سومناتھ مندر کی تعمیر ِ نو کے بعد اْس کی افتتاحی تقریب میں نہ صرف خود جانے سے معذرت کی بلکہ دیگر حکومتی عمائدین کو روکا کیونکہ اِس عمل سے ایک مذہبی مقام کی حکومتی سرپرستی ثابت ہوتی اورحکومت کے اِس عمل سے سکیولر بھارت کے نظریے کو چوٹ پہنچتی۔ (جاری ہے)