چیچوں چیچ گنڈیریاں ، دو تیریاں دو میریاں بندر بانٹ کے اس کھیل نے وطن عزیز کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔اب دو تیریاں دو میریاں  نہیں بلکہ "کروڑوں دیاں دیہاڑیاں  تیریاں تے کروڑاں دیاں  میریاں" ہوتا ہے۔ دن دھاڑے  لوٹ مار کے کیسز جن کا شور و غوغا تھا وہ سب  داخل دفتر ہو چکے۔اس سارے عمل میں غریب عوام کے ٹیکسز کے پیسوں  کا جو بے رحمانہ استعمال ہوا اس کا آڈٹ کیا جائے تو اور کئی ان کہی کہانیاں سامنے آئیں گی۔ اشرافیہ نے من چاہی قانون سازی کر کے عدل کے ایوانوں میں بیٹھے  ان منصفوںکو ان  تمام ملزمان کو قانونی حماموں میں خوشبو دار صابن سے  نہلا دھلا کر اجلی پو شاکوں پہنا کر معصوم قرار دئیے جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انصاف کے ان ایوانوں میں بیٹھے ان تمام منصفوں نے اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں "عدل " رب ذوالجلال کی صفت ہے۔اور وہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ کرپشن ، منی لانڈرنگ کے کیسز میں  لتھڑے ہوئے یہ  لوگ ڈرائی کلین ہو  کر مسند اقتدار پر براجمان ہونے کی خواہشات نا تمام کے ساتھ ایک بار پھر عوام کونیا چکمہ ،  نئے  خواب اور  گولی دینے کی تیاریوں میں ہیں۔ مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے غریب آدمی کے بچے روٹی کو ترس رہے ہیں لیکن مقدس ایوانوں میں ذاتی مفادات کے سودے ہورہے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کون ہو گا۔کیسا ہو گا، اب اس پر مشق ستم ہو رہی ہے۔کوئی پوچھے اگر نگران وزیر اعظم کسی سیاسی جماعت کا ہو گا تو وہ غیر جانبدار کیوں کر ہو گا۔؟اور کیسے رہے گا۔ ؟ یہ صرف اپنے حلوے مانڈے کو دوام دینے کی باتیں ہیں۔اس بارے بھی شکوک و شبہات ہیں کہ نگراں آئے تو سابقہ حکومت کے کئے گئے وعدوں کو ایفا کرنے کا بہانہ بنا  کر  انتخابات ہی کو آگے لے جائیں۔ادھر غریب  ٹیکسوں کی بھرمار سے " نکو نک تنگ   آچکا ہے۔  دوسری طرف خبر عام ہے  حکومت نے   افسر شاہی کے لئے کروڑوں روپے کی نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم ویسے تو دنیا بھر میں کشکول اٹھا ئے پھرتے ہیںلیکن اپنا شاہانہ  طرز عمل  چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔غریب عوام کا ٹیکسوں کی بھر مار سے سانس لینا مشکل ہو چکا ہے۔بجلی کے بلوں  میں ٹیکس  نت  نئے ناموں سے  لگایا اور لیا جا رہا ہے اور کوئی دیکھنے  سننے والا نہیں۔  حکومت کی ان چیرہ دستیوں سے بچنے  کے لئے عوام نے  اس کا ایک آسان   نسخہ تلاش  کر لیا ہے جو قارئین کی نذر ہے۔   "مضروبان ٹیکسز "  کا کہنا ہے بجلی کے بل پر  ریڈنگ کے خانے میں تاریخ لکھی ہوتی ہے کہ جس تاریخ کو آپ کے میٹر کی ریڈنگ لی گئی اور بل کے نیچے میٹر ریڈر نے آپ کی میٹر ریڈنگ کی جو تصویر لی ہوتی ہے وہ پرنٹ ہوتی ہے اور وہ تصویر بل پر لکھی گئی میٹر ریڈنگ کی تاریخ سے 10/15 دن زائد یونٹس کی ہوتی ہے۔ عموماً ہر بل میں ریڈنگ کی ایک ہی تاریخ ہوتی ہے۔صارف نے کرنا یہ ہے کہ ریڈنگ والے دن اس تاریخ کا تازہ اخبار لینا ہے اور اس اخبار پر جہاں تاریخ لکھی ہوتی ہے اس اخبار کے حصے کو میٹر کے ساتھ لگا کر ایسے تصویر بنانی ہے کہ میٹر کی ریڈنگ اور اخبار کی تاریخ ایک ہی تصویر میں نظر آ سکیں۔ اس ضمن میں ایک ویڈیو بھی بنائی جا سکتی ہے جس میں اپنی اور اہل محلہ کے 5/7 گھروں کی میٹر ریڈنگ لیکر اہل محلہ کو ساتھ کھڑا کرکے ان سے آج کی تاریخ اور ٹائم ریکارڈ کرلیں، اس کے بعد اس ثبوت کو محفوظ کرلیں جیسے ہی بجلی کا بل آئے جو لازمی اس تصویر یا ویڈیو والی ریڈنگ سے 100/150 یونٹ زیادہ کا ہوگا اس بل کو لے کر اپنی قریب ترین عدالت سے رجوع کریں اور میٹر ریڈر پر اندراج مقدمہ کی درخواست دائر کردیں۔ آپ کی صرف ایک دن کی تکلیف اس پورے محکمہ کے میٹر ریڈروں کو تیر کی طرح سیدھا کردے گی اور آئندہ کے لئے آپ کے بجلی کے بل آدھی قیمت پر آجائیں گے۔ یاد رکھیں آپ کا حق آپ کو کبھی بھی بستر پر لیٹ کر نہیں ملے گا اسے لینے کے لئے آپ کو تھوڑی تکلیف ضرور اٹھانی پڑے گی ورنہ ساری زندگی حکومتوں پر لعن طعن کرتے گزرے گی۔