اسلامی تاریخ میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بے مثال اور لازوال کردار ہمیشہ سے قابل رشک اور لائق تقلید رہا ہے ۔کربلا کی سرزمین جہاں مردوں کی شجاعت و شہادت کی گواہ ہے وہیں پرسیدہ زینب سلام اللہ علیہا کابے مثل کردار، حضرت کلثوم سلام اللہ علیہا، سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر عظیم شہداء کی بیویوں، ماؤں، بیٹیوں کا کردارآج کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے ۔ کربلا میں موجود خواتین نے شہادت امام عالیٰ مقام علیہ السلام کے بعد مختلف مقامات پر اپنے اہم کردار سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے ساتھ رہتی دنیا تک تربیت کرنے والی مثالی خواتین کو لے کر مدینے سے نکلے تھے ۔ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کو ان کی ماؤں،بہنوں، اور بیٹیوں نے یہ باور کروایا کہ تم سے زیادہ قیمتی سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن حضرت امام حسین علیہ السلام کو نقصان پہنچا دے ۔اگر تمہارے جیتے جی ایسا ہو گیا تو روز محشر سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کو ہم کیا منہ دکھائیں گے ۔؟ انہیں عظیم ترین خواتین میں سے ایک سیدہ ام رباب سلام اللہ علیہا کی ذات پاک ہے ۔ جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی زوجہ محترمہ اورسیدنا علی اصغر اور سیدہ سکینہ علیہما السلام کی والدہ ماجدہ ہیں۔ سیدہ ام رباب سلام اللہ علیہا امرؤالقیس بن عدی کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد شام سے تعلق رکھتے تھے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمان ہوئے ۔ سیدہ ام رباب رضی اللہ عنہا عورتوں میں فضیلت، خوبصورتی، فہم و فراست کے لحاظ سے بہترین اور اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعرہ بھی تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کو سیدہ ام رباب سلام اللہ علیہا سے بھی انسیت تھی، آپ سے اپنی محبت کا اظہار اشعار کی صورت میں بھی فرمایا کرتے تھے ۔ مثلاً ایک شعر میں آپ فرماتے ہیں:’’جس گھر میں ام رباب اور سکینہ ہوں مجھے وہ گھر پسند ہے ۔ سیدہ ام رباب کے بارے میں امام حسین علیہ السلام کے اور اشعار بھی موجود ہیں۔بلاشبہ میں ان دونوں سے بے پناہ محبت کرتا ہوں اور میں ان پر اپنا مال خرچ کرتا رہوں گا، اس بارے میں ملامت گروں کی مجھے کوئی پرواہ نہیں اور بلاشبہ میں جب تک زندہ ہوں ان ملامت گروں کی باتوں میں آنے والا نہیں، میں یوں ہی حسن سلوک کرتا رہوں گا جب تک میں زندہ ہوں۔‘‘ (الاغانی) سیدہ ام رباب واقعہ کربلاء کے وقت میدان کارزارکربلا میں موجود تھیں اور انھیں اسیران اہل بیت کے ہمراہ شام بھی لایا گیا۔ آپ نے سیدنا علی اصغر علیہ السلام کی اپنے بابا جان کی آغوش میں شہادت کو مشاہدہ فرمایا۔ جب امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے تو بہت بے تاب تھیں۔ اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کے جو اشعار منقول ہیں ان کا مفہوم یہ ہے ۔بلا شبہ وہ ایسا نور تھا جس سے روشنی حاصل کی جاتی تھی جسے کربلا میں شہید کر کے دفن نہیں کیا گیا،اے سبط نبی اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے قیامت کے روز آپ کا حساب برے اعمال سے خالی ہو گا،آپ میرے لئے ایک پناہ گاہ اور تکیہ گاہ تھے ۔ اور آپ ہمارے ساتھ رحمت اور دینداری سے پیش آتے ۔خدا کی قسم! آپ کے بعد کسی کے ساتھ شادی نہیں کروں گی یہاں تک کہ مٹی و خاک میں دفن ہو کر چھپ جاؤں گی۔ایک اور قول کے مطابق سیدہ ام رباب نے ابن زیاد کے دربار میں امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک ہاتھوں میں لے کر بوسہ لیا اور یوں کہا:میں نے آپ کو نہیں بھلایا جبکہ دشمن کے نیزوں نے آپ کے بدن کو چاک کر دیابلا شبہ دشمن نے چال کے ذریعے آپ کو کربلا میں شہید کیا،اے اللہ! کربلا کے اطراف کو سیراب نہ کر۔۔سانحہ کربلاء اور اسیری شام سے رہائی کے بعد قافلہ اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ مدینہ پہنچیں۔ابن کثیر کے مطابق سیدہ ام رباب سلام اللہ علیہا واقعہ کربلا کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ نہ رہیں اور اس ایک سال میں درخت کے سائے میں نہ بیٹھیں اور شدید غم و اندوہ کی حالت میں اس دار فانی سے دار البقا کی طرف سفر اختیار فرمایا۔ سید محسن امین نے آپ کا سنہ وفات۶۲ ہجری (یعنی عاشورا کے ایک سال بعد) لکھا ہے ۔حضرت سیدہ ام رباب سلام اللہ علیہا کی وفا، استقامت، جرائت و شجاعت، عزم و استقلال، صبر و حوصلہ، شرم و حیا اور رضا ء الہی کا جذبہ آج بھی خواتین کے لئے قابل تقلید ہے اور قیامت تک رہے گا۔