کچھ لوگوں نے سیاست اور سیاسی وابستگی کے ہر ممکن اظہار کو اپنی زندگی کا مرکزہ بنا رکھا ہے۔ایسے لوگ زندگی میں صرف تفریق اور تقسیم کو ہی ہوا نہیں دیتے بلکہ غیر شعوری طور پر اپنی زندگیوں کو بھی بے سکونی سے دوچار کیے رکھتے ہیں۔ 2016 میں امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں ایک بڑا ہی دلچسپ سروے ہوا کہ انتخابات کے موسم میں سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے جذباتی لوگوں کے بلڈ پریشر میں اتار چڑھاؤ بڑھ جاتا ہے۔یہ ریسرچ امریکہ کے ایک ہیلتھ جرنل میں شائع ہوئی۔ کم و بیش چار ہزار لوگوں کا سروے کیا گیا اور ان کے بلڈ پریشر نوٹ کیے گئے۔ 2016میں امریکی صدراتی الیکشن کے سال مئی سے لے کر اکتوبر تک صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران جو اعداد و شمار اکٹھے کیے ان کے مطابق الیکشن میں اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی ہار اور جیت کے حوالے سے جذباتی افراد میں صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔فشار خون کا یہ اتار چڑھاؤ اور صحت کے دیگر مسائل صرف سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز میں نہیں ہوتے بلکہ سیاست دانوں میں بھی اس کی علامات پائی جاتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ انتخابات جیتیں یا ہاریں کیونکہ انتخابی موسم میں جیت کی توقعات اور ہار کے خدشات کے حوالے سے سیاسی وابستگیوں کو اپنے اوپر سوار کرنے والے لوگوں میں ایک چارجڈ ذہنی اور جذباتی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ سروے تو امریکہ میں ہوا، امریکہ میں صدارتی الیکشن نومبر میں ہوتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے سروے میں کوئی تذکرہ نہیں کہ سیاسی وابستگان پر بعد میں کیا گزرتی ہے۔ اگر یہی سروے پاکستان ہو تو جذباتی سیاسی وابستگان میں الیکشن کے فشار خون میں زیادہ مدوجزر نظر آئے گا ۔جذباتی اور ذہنی کیفیت زیادہ درہم برہم ہونے کے اعدادوشمار ملیں گے۔یہاں الیکشن کے نتائج آنے کے ساتھ ہی دھاندلی کا شور ،الزامات ،احتجاج اور دھرنوں کی دھمک سنائی دینے لگتی۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک غضب کا رن پڑتا ہے۔سیاسی وابستگیاں رکھنے والے جذباتی لوگ اور ان کے ہر ممکنہ اظہار کرنے والے افراد شائستگی سے بالاتر ہو کر سوشل میڈیا پر اپنے اپنے سیاسی لیڈر کی جنگ لڑتے ہیں۔ ان کے اندر خیالات کا ابال چلتا رہتا ہے۔اس سیاسی ابال کا فوری اظہار وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کرتے ہیں۔ پہلے لوگوں کے پاس اظہار کے یہ مواقع نہیں تھے مگر اب سوشل میڈیا میسر ہے جس پر سچ جھوٹ کا ایک طوفان برپا ہے۔ بغیر روک ٹوک کے سچ جھوٹ جو چاہو شئیر کرتے جاو۔ سیاسی مخالفین پر بنائے جانے والے طنز یہ لطیفے، میمز اور فیس بک وال پر طنز کے زہر سے بھری ہوئی پوسٹوں سے دراصل وہ اپنے اندر کی بے چینی اور بے سکونی کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے وابستگان کے تند و تیز لہجوں کو دیکھ کر یہ کالم لکھنے کا خیال آیا۔اپنے لیڈر کے ساتھ ان کی غیر مشروط سیاسی وابستگی اور شخصیت پرستی کی انتہا نے ان کے مزاجوں کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ سیاست میں ایسا کیا ہے کہ اچھے خاصے مہذب نظر آنے والے مرد حضرات اور بیبیاں ،سیاسی وابستگیوں اور شخصیت پرستی کا شکار ہوکر تہذیب اور تمیز کے خاص معیار سے نیچے اتر کر اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی سیاسی وابستگیوں پر اپنے تعلق اور دوستیاں تک قربان کرنے میں تامل محسوس نہیں کرتیکچھ سال پہلے جب الیکٹرانک میڈیا کا نیا نیا دور آ یا اور سر شام ایسے ٹاک شوز چلنے لگے جن میں ایک عدد اینکر مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاست دانوں کو بٹھا کر چونچیں لڑانے کا کام کرتا تھا اور الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شو کا یہ فیشن تیزی سے مقبول ہوا۔اس کلچر کے حوالے سے انڈین اخبار میں ایک تجزیہ نگار نے بڑا دلچسپ مضمون لکھا اور یہ جملہ میرے ذہن میں رہ گیا ۔ اس نے لکھا کہ سیاسی ماحول میں جو کچھ سارا دن ہوتا ہے ٹی وی اینکرز اس گاربیج (گند) کو اٹھاتے ہیں اور سر شام اپنے ٹاک شوز میں ناظرین کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ الیکشن کے بعد کی صورتحال میں سوشل میڈیا کی دیواروں اور سیاسی وابستگان کی پوسٹیں دیکھ کر مجھے اسی سیاسی گاربیج کا خیال آیا۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ گفتگو کرو تاکہ پہچانے جاو۔ہمارے الفاظ کا چناؤ اور اس کا اظہار بھی ہماری شخصیت کا پتہ دیتا ہے۔یہ سماجی رابطے کا پلیٹ فارم ہے جہاں لوگ دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ۔یہاں پر اظہار کے لیے تہذیب کا پیرایہ اختیار کرنا چاہیے۔تعصب کی کوئی بھی شکل ہو لوگوں کو تقسیم کرتی ہے۔ مسلک مذہب رنگ و نسل اور حسب و نسب کا تعصب اگر اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ انسانوں کو تقسیم کرتا ہے اور سماج میں تفریق پیدا کرتا ہے تو پھر سیاسی تعصبات کا کا تواتر سے اظہار کس طرح اچھا ہوسکتا ہے۔ تمام جھگڑے تعصب کی اسی تقسیم اور تفریق سے پیدا ہوتے ہیں۔عدم برداشت کے اس دور میں سیاست تقسیم اور نفرت پیدا کرتی ہے۔کبھی بچے غیر سیاسی ہوتے تھے لیکن افسوس کہ سیاست کے خناس نے گھروں میں موجود بچوں کو بھی پولیٹسائز کر دیا ہے۔سیاست کے حوالے سے اپنا ایک سیاسی نقطہ نظر رکھنا اور بات ہے لیکن اس تعصب کی بنیاد پر بچوں کو دوسروں پر طنز کرنا سکھانا بچوں کی غلط تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ اگر تم اپنی دوستیاں سلامت رکھنا چاہتے ہو ،دوستوں کے ساتھ کبھی مذہب اور سیاست پر بحث نہ کرنا کہ مذہب اور سیاست یہ دو چیزیں ہیں جس پر لوگ غیر معمولی جذباتیت اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پولٹیسائز ہونا اسی لیے منفی اصطلاح میں استعمال ہوتا کہ لوگ اپنے سیاسی تعصب کی نظر سے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں اور سیاسی وابستگیوں پر برسوں کے تعلق اور دوستیاں قربان کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ سیاسی وابستگی کے ہمہ وقت جذباتی ابال کا شکار ہوکر آپ ان سیاسی لیڈروں کے لیے اپنی زندگی کا سکون اور شادابی کھو رہے جن کے لیے آپ طاقت اور اقتدار تک پہنچنے کا صرف ایک مہرہ ہیں۔ سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ اخلاقی شعور کا ہونا بھی بہت اہم ہے۔ سیاسی شعور اہم ہے مگر سیاست ہی زندگی نہیں!