مکالمہ، سوال اور اجتماعی شعور و آگہی کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتی ہیں۔ یہ وہ منبع  ہے جس سے کئی سوتے پھوٹتے ہیں اور سمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ اس جدید دور میں جب دنیا انگلیوں کے پوروں پر سمٹ آئی ہو ہم نے اذہان کی بلندی کی سنجیدہ تحریروں اور معلوماتی ویڈیوز کے بجائے  ان خرافات کا انتخاب کیا جس نے نہ صرف  ہماری عقل و دانش کو پا بہ زنجیر کیا  بلکہ ہمیں منزل سے  دور کرتے ہوئے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا جس سے ملی وحدت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ستم بالائے ستم " جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے" معاشرے کا وہ پڑھا لکھا طبقہ جس سے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ قبلہ درست کرے گا وہ بزعم خویش اس بیماری کا شکار ہو کر تقسیم در تقسیم ہو گیا۔بے معنی گفتگو، لا حاصل مباحث،دھڑے بندی ، شخصیت پرستی ،  ہٹ دھرمی اور دیگر ایسے کئی عوامل نے اس تقسیم کو مزید بڑھایا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ  اشرافیہ  میں اس کے جرثومے نہ ہونے کے برابر ہیں البتہ جہاں بھوک، ننگ ، افلاس اور غربت ہر گھر کی  منڈیروں پر بال کھولے نوحہ خواں ہے وہاں یہ بیماری عام ہے۔ کہا جاتا ہے ایک تصویر کئی سطروں پر مبنی تحریر سے زیادہ اثر چھوڑتی ہے اور جب یہ ہی تصویر تھرکتے  انداز میں صوتی اثرات کے ساتھ مختلف بیانیوں کے ساتھ مزاحیہ یا سنجیدہ انداز میں دکھائی جائے تو یہ نہ صرف دلوں میں گھر کرتی ہے بلکہ ذہنوں میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ہمارے ہاں سکول، کالج اور  یونیورسٹیز کی سطح پر بھی کوئی ایسا پروگرام نہیں جس میں اس شعور کو اجاگر کیا جائے۔اگر طلبا تنظیمیں ہیں بھی تو وہاں مخاصمانہ یا نفرت کی سیاست ہی پروان چڑھتی دیکھی ہے۔ مکالمہ کیا ہوتا ہے؟۔سوال کیسے کیا جاتا ہے، دلیل کتنا وزن رکھتی ہے ہمارا آج کاسیاسی کارکن یا  کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے نرم گوشہ رکھنے والا شخص  ان تمام خصائص سے آزاد ہے۔ اختلاف جمہوری معاشروں کا حسن ہوتا ہے۔اختلاف مکالمے یا سوال کے تناظر میں سامنے آتا ہے اور یہیں سے برد باری، صبر و تحمل اور برداشت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ یہ ہی نقطہ آغاز ہے جہاں  سے اپنے غلط اور درست ہونے کا پتہ چلتا ہے اور موقع ملتا ہے کہ اپنی، سوچ ، رویے اور انداز گفتگو کو بہتر بنایا جائے۔کیا ہم میں سے کسی کو یاد ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے کارکنوں کے لئے ایسی ورکشاپس  سیمینار یا سمپوزیم کروائے ہوں جہاں ان کی سیاسی تربیت کرنا مقصود ہو ، کیا کبھی اس طرز حکومت جسے ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں اس کے اصولوں سے کسی سیاسی کارکن کو آگاہی دی گئی ہے۔اس تلخ حقیقت کو ماننا پڑے گا ہماری سیاسی جماعتوں کا وہ مزاج ہی نہیں جو جمہوری اقدار سے تال میل رکھتا ہو۔ہاں ہمیں یہ یاد ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کنونشن ضرور ہوتے ہیں اور ایسے مواقعوں پر " تیرے جاں نثار بے شمار اور ایسے ہی گھسے پٹے سحر میں مبتلا کرنے والے نعروں کی گونج  کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔انسانی جبلت میں انتقام غصہ، اور محبت ایسے سارے جذبات ہوتے ہیں تاہم مناسب تربیت سے ان جذبات کے اظہار میں مدد مل سکتی ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے توڑ پھوڑ،  جلاو، گھیراؤ  اور نفرت کی سیاست کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اصلاح احوال کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین برد باری کا مظاہرہ کریں۔ سیاست کو ، صبر   تحمل، برداشت اور مخالفین کے موقف سے اگر  ضروری ہو تو ٹھوس  استدلال کے ساتھ اختلاف  کیا جائے۔تاکہ کارکنوں کی مثبت انداز میں سیاسی تربیت ہو سکے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے اگر سیاسی جماعتیں چاہیں تو ایسے  پروگرام ترتیب دے کر مطلوبہ نتائج  حاصل  کر سکتی ہیں۔ان اقدامات سے نہ صرف  سیاست میں نکھار آئے گا بلکہ سیاسی میدان اور ایوانوں میں مستحسن فیصلے  بھی ہوں گے۔ سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں لہذا ان کی تربیت بھی ان خطوط پر ہونا چاہئے تاکہ وہ آنے والے کل میں جماعت کی انتظامی و سیاسی  ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکیں۔اس سلسلے میں  مختلف یونیورسٹیوں  کے اساتذہ کرام ، سوشل سائنٹسٹس،  انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان ، علما کرام اور  وکلا  کو بطور گیسٹ اسپیکر مدعو کیا جا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ مسلسل چلتے رہنا چاہیئے تاکہ وقت اور درپیش مسائل   کے تناظر میں  اجتماعی دانش کی تجاویز  سامنے آسکیں۔ عالم  دین جب بات کرے گا تو وہ دینی حوالوں  سے مختلف  پہلووں پر روشنی ڈالے گا، وکیل کا طرز استدلال قانون کے حوالیکا احاطہ کرے گا۔ اس طرح مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اشخاص کی جانب سے آنے والی  تجاویز جمہوری اقدار کی حامل ہو ں گی۔جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔سیاست ایک پیچیدہ فن ہے اس میں جذبات سے زیادہ، صبر، تحمل اور دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔سیاسی قائدین اور سیاسی کارکنوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پر مغز اور ٹھوس دلیل کے ساتھ اپنامافی الضمیر بیان کریں۔مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور موقع محل کی مناسبت سے  گفت و شنید کافن بھی آنا چاہئے  یہ سب کچھ کسی سیاسی اتالیق  یا منجھے ہوئے سیاست دان کے بغیر ممکن نہیں۔ مشکل حالات میں محتاط الفاظ ، نرم گوئی اور پر اثر موقف زیادہ اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ہماری اسمبلیوں میں اکثر و بیشتر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں ذاتیات پر حملے، ساتھی خواتین کے بارے اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ ، ذو معنی جملے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑنا فرض عین سمجھا جا تا ہے۔ یہ  شعوری عمل نہ صرف سیاسی دیوالیہ پن کا مظہر ہو تا ہے بلکہ اس سے عوام میں بھی  مایوسی پھیلتی ہے۔