جیسے ہمارے بڑے اور بزرگ تحریک ِ پاکستان کے عشق میں گرفتار تھے اور قائد اور دوسرے زعما کی باتیں سینے سے لگائے رکھتے تھے کہ یہی ان کی زندگی کا سرمایہ تھا ویسے ہی مشرقی پاکستان کو ہم نے سینے سے لگایا ہوا ہے۔جب بزرگ پاکستان کی تحریک کے متعلق بات کرتے تب ان کا چہرہ فرط ِجذبات سے سرخ ہو جاتا اور بات پاکستان کے قیام پر بات ختم ہوتی۔اب وہ نسل ختم ہو گئی ہے جو ہمیں پاکستان کے حصول اور اس کے لیے کی گئی جدوجہد کی کہانیاں سناتی تھی۔ان کے لاشعور میں پاکستان بسا پڑا تھا۔لاشعور ذہن کا دوسرا نام ہے اور شعور دماغ کی آماجگاہ۔جب کوئی خواہش تکمیل نہیں پاتی تو وہ لاشعور میں جاگزین ہو جاتی ہے۔ہمارے سیاسی لاشعور میں پیارا مشرقی پاکستان بسا ہوا ہے بلکہ اس کی وہاں حکمرانی ہے۔ادھر مشرقی پاکستان کی بات ہوئی ادھر ہمارے زخم تازہ ہو گئے۔اس گرہ کے پیچھے سیاسی ناآسودگی کے علاوہ ذاتی دکھ درد بھی ہے۔بچپن میں مشرقی پاکستان ہمیں ایک طلسمی خطہ لگتا تھا۔ریڈیو پر پوربو پاکستان اور پچھمی پاکستان کا نام سن کر طمانیت کی لہر سی اٹھتی اور ہمارا بچپن اس خوشی میں مست ہوتا رہتا۔اب یہ دکھ دو گونہ ہو گیا ہے جب بھی مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کی بات ہوتی ہے اس کی ابھرتی ہوئی معیشت کا ذکر ہوتا ہے اور اس کے ترقی یافتہ ممالک جتنے زر مبادلہ کے ذخائر کا پتہ چلتا ہے یا اس کی برآمدات میں اضافے کا سنتے ہیں تو لاشعور جاگ جاتا ہے اور دماغ سن ہو جاتا ہے۔جیسے ہم سے پہلی نسل قائد اعظم کے چودہ نکات ، لکھنو پیکٹ، کرپس مشن اور قرارداد لاہور کی باتیں کرتے تھے ہم ون یونٹ کے قیام، ایوب خان کی دو سالہ ایکسٹینشن، اگر تلہ سازش کیس، پینسٹھ کی جنگ، سپیکر مولوی تمیزالدین کیس اور سقوط ڈھاکہ کو اپنی جان کا روگ بنائے بیٹھے ہیں۔کہاں سے تار الجھی کون سی گرہ غلط لگی کہاں پر ٹھوکر کھائی بس اس مخمصے کی گتھیاں سلجھانے لگتے ہیں۔بھلا تاریخ کی گتھی کوئی سلجھا سکا ہے۔ تاریخ اور پھر ہماری تاریخ تو ایک خوں چکاں باب ہے۔کوئی اس گرہ کو کھولنے کا اہتمام کرتا ہے تو ہم اس کے دیوانے ہو جاتے ہیں۔شناور اسحاق کا شعر ہے اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا مگر کچھ لوگ ہیں جو اپنی دیوانگی کو حرز ِجان بنائے ہوئے ہیں۔وہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ریشم کی انائی میں ٹاٹ کے دھاگے کیسے لگ گئے۔ہم بھی جوگیوں کی طرح ایسے تریاق بنانے والوں یا اس کی کوشش میں لگے رہنے والوں کی تلاش میں مگن رہتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ون یونٹ متحدہ پاکستان کی بنیاد بن سکتا تھا۔ محمد علی بوگرہ نے اسمبلی میں اپنی بنگالی نما اردو میں اس کے خدوخال کی بات کی تھی۔ون یونٹ کو یونٹی سمجھا تھا۔اس بل کی منظوری کے وقت اسکندر مرزا نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی فراہمی کا ذریعہ یہی بل ہے۔مگر مشرقی پاکستان کی خود مختاری یا صوبائی خود مختاری سے زیادہ عزیز چند روزہ اقتدار کی ہوس نے اس حصے کو ہمیشہ کے لیے ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا دیا اور موقر ترین روزنامہ زمیندار دور کی کوڑی لایا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی نابالغوں پر مشتمل ہے جسے ووٹ دینے کا حق نہیں، لہذا حقیقت یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ نہیں ہے۔ فاروق عادل کا کہنا ہے کہ گویا ایک ثابت شدہ حقیقت کو جھٹلانے والی کی بنیاد پر برسوں پروپیگنڈہ جاری رکھا گیا بلکہ تان یہاں توڑی گئی کہ دونوں ایوانوں میں نشستوں کی تعداد کا تعین کرتے وقت محض آبادی نہ دیکھی جائے۔ بلکہ اور مصلحتوں کو بھی دیکھا جائے۔انہی مصلحتوں کی بھینٹ یہ ملک چڑھا اور دو لخت ہو گیا۔اب ایسی تحقیق کون کرتا کہ تب کسی نے کیا کہا تھا اور کیا لکھا تھا۔اس سیاست آشوب کا احوال فاروق عادل نے ہم نے جو بھلا دیا میں قلم بند کیا ہے۔اس سیاست آشوب میں کہیں پہلی سیاسی جلاوطنی ہے اور کہیں لہو لہان ایوان ہے۔اسکندر مرزا نے 20 ستمبر 1958 میں ایک آرڈی نینس جاری کیا تھا جس کو اب یاد کریں تو غالب یاد آتا ہے کہ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں اس آرڈی نینس کے تحت سرکاری وکلا کے لیے یہ گنجائش پیدا کی گئی کہ وہ حکومت کی ملازمت کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت بھی برقرار رکھ سکیں گے۔تب شیخ مجیب الرحمان جگتو فرنٹ کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی تھے۔عوامی لیگ کے قیام 1949 میں قوم پرست رہنما شامل تھے جن میں مولانا بھاشانی، یار محمد خان اور شمس الحق شامل تھے۔ شیخ مجیب اور حسین شہید سہروردی بعد میں اس میں شامل ہوئے۔اسی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر شاہد علی خان قتل ہوئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ عوامی لیگ ان کے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کر رہی تھی تا کہ معلوم ہو سکے کہ ان کے قتل کی اصل وجہ کیا تھی۔شیخ مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی پسلیاں توڑ دی گئی تھیں۔حد یہ ہے کہ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کے پینل پر عدم اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے کلکتہ سے ایک ڈاکٹر بلوایا تھا تا کہ اصل تحقیق کا پتہ چل سکے۔کہا جاتا ہے عوامی لیگ تب ایوان میں اپنی اکثریت کھو چکی تھی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیخ مجیب الرحمان بھی بھاشانی اور عوامی لیگ کے بانیوں کی طرح بنگالی قوم پرست تھا۔اس طرح کے درجنوں نہیں سینکڑوں واقعات ہیں جو فاروق عادل نے ہم نے جو بھلا دیا میں بیان کیے ہیں۔یہ کوئی تحقیق نہیں بلکہ دل کے زخموں کو سنبھالنے کر رکھنے کی سعی مشکور ہے۔جب تک ایک بھی دردمند پاکستانی زندہ ہے یہ سانحہ اور اس کے ذمہ داران نہیں بھلائے جا سکتے۔بین السطور اس سانحے کے ذمہ داران کا ذکر موجود ہے مگر کوئی عبرت یا سبق حاصل کرنے والا نہیں۔کہا جاتا ہے کہ کتاب پڑھنے کے لیے فراغت اور گوشہ چمن ہونا ضروری ہے۔مگر فاروق عادل کی کتاب تپتے توے پر بیٹھ کر پڑھنے والی ہے اور سچ یہ ہے کہ یہ کتاب بذات خود تتا توا ہے۔