گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے پاکستان کی سیاست میں پیدا شدہ بحران کسی طور قابو میں نہیں آرہا ۔روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیوں ،فیصلوں اور قانونی موشگافیوں کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور انتظامیہ تماشہ بنی ہوئی ہیں ۔قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کے بعد تحریک انصاف نے ملک میں عام انتخابات کے لئے جو احتجاج شروع کیا تھا، اس کے اگلے مرحلے کے طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا ،جہاں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں، اسمبلیوں کی تحلیل کیا جانا شامل تھا ،پنجاب میں جہاں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مخلوط حکومت قائم تھی اور مصلحتا وزارت اعلی مسلم لیگ ( ق)کے پرویز الٰہی کو دی گئی تھی، اسمبلی کی تحلیل کے خلاف مزاحمت موجود تھی تاہم عمران خان نے کچھ تاخیر سے سہی پرویز الہی سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے لئے سمری پر دستخط کروالئے ہیں ۔ جوصوبائی گورنر کی رسمی منظوری سے یا اس کے بغیر بھی یہ اب آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں خود بخود تحلیل ہو جائے گی ۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کی اسمبلی بھی عمران خان کی خواہش کے مطابق اسی انجام سے دوچار ہونے جارہی ہے۔دستور کے مطابق ان دونوں صوبوںمیں نئے انتخابات کا انعقاد آئندہ نوے روز میں ہونا ضروری ہے مگر اس سے پہلے ان دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کے لئے وہاں کے قائد حزب اختلاف سے مشاورت ضروری ہے۔جو عمران خان کی اب تک کی غیر مفاہمانہ سیاست کے باعث ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوگا سیاسی مشاورت کی ناکامی کے بعد اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی صوابدید پر ہوگا ۔جس پر عدم اعتماد کا اظہار عمران خان پہلے ہی متعدد بار کر چکے ہیں۔یوں ان انتخابات کے مراحل کا طے کیا جانا ، ہر دو صوبوں میں ، آسان نہیں ہوگا۔وفاق میں اتحادی حکومت پورے ملک میں انتخابات کے عمل سے گریزاں ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ وہ سخت معاشی فیصلے ہیں جو اس حکومت کو حالات کے جبر کے تحت کرنے پڑے اور جس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام میں ا س کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا، اس پر مستزاد وفاقی حکومت سے علیحدگی کے بعد عمران خان نے جوجارحانہ سیاسی حکمت عملی اختیار کی اس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا جس کے زعم میں وہ اب ملک میں عام انتخابات کے لئے مسلسل دبائو ڈالنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ اس دبائو میں شدت پیدا کرنے کے لئے ہی کیاگیا ہے۔مگر کیا وفاقی حکومت اس دبائو میں آسکے گی اور کیا سندھ ،بلوچستان اور وفاق کے بغیر دو صوبوں میں انتخابات کا انعقادآئند عام انتخابات کے موقع پر اتحادی جماعتوں کے لئے سازگار ہوگا یا نہیں اور کیا ان دو صوبوں میں انتخابات کے بعد پاکستان کی سیاسی مشکلات کم ہو پائینگی اور پنجاب اور خیبر پختون خوا میں دوبارہ انتخابات جیتنے کے بعد، جیسا کہ عام خیال ہے ، تحریک انصاف صورت حال کو کس طرح مختلف بنا پائیگی؟ یہ اور اسی طرح کے بے شمار سوالات سیاسی افق پر موجود ہیں ۔ وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں موجودہ صورتحال میں عوام کی حمایت کے حصول میں تذبذب کا شکار ہیں۔اول تو یہ کہ انہیں بہت مشکل معاشی صورتحال کے باعث عالمی مالیاتی فنڈ کی سخت شرائط تسلیم کرنا پڑیں،جس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا طوفان آگیا، جس نمٹنے کی اس اتحادی حکومت کی کوئی تیاری نہیں تھی، رہی سہی کسر غیر معمولی بارشوں اور تباہ کن سیلاب نے پوری کردی۔دوم عمران خان کی احتجاجی سیاست نے ملک کو مسلسل بحرانی کیفیت میں مبتلا کئے رکھا ۔سیاسی عدم استحکام اور مسلسل خراب ہوتی معاشی صورتحال سے اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے ،جس کے باعث وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں یہ جان چکی ہیں کہ اگر موجودہ دبائو کے تحت پورے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں تو تحریک انصاف پنجاب اور خیبرپختون خوا کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگی۔ یہ صورت حال بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے قابل قبول نہیں وہ ملک کی سطح پر قومی انتخابات کو اس وقت تک کے لئے التوا میں رکھنا چاہتی ہے جب تک وہ سیاسی اور معاشی میدان میں کسی بڑی پیشرفت کے بعد اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر نہ بنالیں، اگرچہ اس کے امکانات بظاہر کم ہی ہیں۔موجودہ سال انتخابات کا سال ہے جن کا انعقاد اکتوبر میں بحر حال ہونا ہیں۔حالیہ پیدا شدہ سیاسی بحران کا واحد حل انتخابات کا انعقاد ہی ہے وہ اکتوبر میں ہوں یا پھر اپریل یا مئی میں اس کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے سیاسی قیادت کو مکالمہ کرنا ہی ہوگا یہ نہ صرف سیاسی ضرورت ہے بلکہ آئینی تقاضہ بھی اس سے گریز ممکن نہیں۔وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ( ن) کو حقائق کا سامنا کرتے ہوئے ریاست کے مفادات کو سیاسی مصلحتوں پر ترجیح دینا ہوگی اگر موجودہ سیاسی حالات اس کے حق میں نہیں ہیں تو اس کو اپنے حق میں کرنے کے لئے بہتر کارکردگی اور دور رس دانشمندانہ فیصلے ہی اس کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ یہ ہی جمہوری سیاست کا چلن ہے۔ اور قیادت کی آزمائش بھی ۔بسا اوقات جیت کے لئے کبھی عارضی پسپائی کو بھی قبول کرنا ہوتا ہے۔PDM کی صورت جو سیاسی اتحاد قائم ہوا تھا اور وفاق میں حکومت کے حصول کے ذریعہ نیب میں چل رہے مقدمات کو ختم کرنے کا جو ہدف اس اتحادی حکومت کے سامنے تھا وہ بڑی حد تک انہیں حاصل ہو چکا ہے لہذا اب اگر سیاسی سطح پر اس کی قیمت چکانے کا وقت آگیا ہے تو یہ تو انہیں چکانی ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی ناقص حکومتی کارکردگی اور بہت سارے غلط فیصلو ں کے باوجود اپنی مقبولیت کی بلند سطح پر ہے۔اس مقبولیت کو غیر سیاسی طریقوں سے کم کرنا کسی طور بھی سیاست اور ریاست کے حق میں نہیں ۔ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت طے کرنے کا پیمانہ عوام کے پاس ہوتا ہے ۔اسے عوام کے پاس ہی رہنا چاہیئے اور اس کا بہتر طریقہ انتخابات ہیں جن کا انعقاد احسن انداز سے جتنا جلد ہو جائے بہتر ہوگا ۔یہ ہی موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا آسان اور جمہوری راستہ ہے۔ جمہوری سیاست میں بقا کے لئے ضد، ذاتی انا اور ہٹ دھرمی سے گریز کرنا ہی سیاسی دانائی ہے۔کیا پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت اس کا اظہار کر پائیگی؟