دنیا کی حسین عمارت تاج محل پر 22 اپریل اور29اپریل 2018ء کو دو مسلسل تحریروں’’ ـسنگ مرمر کا خواب‘ ‘ اور ’’ دل کی طرح دھڑکتی عمارت ‘ ‘ کو جس طرح سراہا گیا ،وہ بہت حوصلہ افزا ہے اور میں ان محبتوں کے لیے شکر گزار ہوں۔ایک دوست کے پیغام کے مطابق تاج محل کی فنی اور تعمیری خصوصیات پر ایک تحریر مزید آنی چاہیے۔میں خود بھی یہ تشنگی محسوس کر رہا تھا اس لیے اس پر بھی مختصرا بات کرتا ہوں۔ 17جون1631ء کوشاہ جہاں کے چودھویں بچے شہزادی گوہر آرا کو جنم دیتے ہوئے 38سالہ ممتاز محل برہان پور ،حید ر آباد دکن میںانتقال کر گئی ۔ ممتاز محل کو امانتاً دریائے تپتی کے کنارے شاہ جہاں کے چچا دانیال کے باغ زین آباد میں دفن کیا گیا۔لیکن شاہ جہاں اس محبت کی یادگار عمارت آگرہ میں بنانا چاہتا تھا چنانچہ دسمبر1631 ء میں ملکہ کی میت اس کے بیٹے شاہ شجاع کی نگرانی میں سنہرے تابوت میں آگرہ لائی گئی اور دریائے جمنا کے پاس ایک چار دیواری میں تاج محل کی تکمیل تک کے لیے دفن کردی گئی۔ اس یادگار کے لیے شاہ جہاں نے معمار استاد احمد لاہوری کا انتخاب کیا۔شاہ جہاں ہر مرحلے میں دل چسپی سے شریک رہا۔آخر دریائے جمنا کے کنارے اس قطعۂ زمین کا انتخاب کیا گیا جو راجہ مان سنگھ کی ملکیت تھا۔56ایکڑ کا یہ مستطیل قطعہ جنوب سے شمال کی طرف بتدریج بلند ہوتا گیا تھا۔عمارت کا نقشہ تیار ہوا۔ تاج محل کے احاطے میں وہ میوزیم موجود ہے جس میں ابتدائی نقشے محفوظ ہیں۔ مجھے ہمایوں کا مقبرہ دہلی تاج محل کا ابتدائی خاکہ لگتا ہے ۔1631ء میں تاج محل کی تعمیر کا آغاز ہوا ۔0 2 ہزار مزدوروں،سنگ تراشوں،معماروں، خطاطوں سمیت بہت سے اہل ہنر نے بائیس سال کام کیا اور 1653ء میں یہ مقبرہ مکمل ہوا۔سامان کے لیے ایک ہزار ہاتھی مامور کیے گئے ۔ دریا کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے سیلاب، پانی اور نمی بہت بڑے خطرات تھے۔چنانچہ بنیادوں میں کنوؤں کا ایک سلسلہ بنایا گیااور انہیں سال کی لکڑی (sal wood)اورچنائی سے بھرا گیا ۔ ماہرین کے مطابق دریا ئے جمنا تاج محل کے لیے خطرہ نہیں بلکہ بقا کا سبب ہے ۔اگر دریا نہ رہے تو تاج کی بنیاد خطرے میں پڑ جائے گی ۔ میرے علم کے مطابق دنیا میں کسی عمارت کی یہ پہلی اور آخری ہائیڈرالک فاؤنڈیشن تھی ۔ بنیادیں بھرنے، عمارت کی کرسی بنانے کا کام پندرہ سال میں مکمل ہوا جبکہ مسجد، مہمان خانہ، داخلے کا دروازہ بننے میں مزید پانچ سال صرف ہوئے ۔ سنگ مرمر زیادہ تر راجستھان کی مکرانا کان سے نکالا گیا او رپنجاب، چین، تبت، افغانستان،سری لنکا اور عرب سے بھی منگوایا گیا ۔ اٹھائیس اقسام کے قیمتی پتھر جڑاؤ کام کے لیے استعمال ہوئے۔سنگ یشب پنجاب، فیروزہ تبت،لاجورد افغانستان ، اور نیلم اور بلّور چین سے لائے گئے ۔ ان کاموں کے لیے ترکی ، ایران اور عرب سے بھی ماہرترین کاری گر بلوائے گئے۔ سنگ مرمر میں نازک بیلوں ، پھولوں اور پتیوں میں مختلف قیمتی پتھر کمال مہارت سے جڑے گئے ہیں ۔سورج نکلتے وقت عمارت پر روشنیوں کی چھوٹ پڑتے دیکھنا ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ آپ عمار ت سے ذرا فاصلے پر چلے جائیں۔مثلا مہمان خانے اور مقبرے کے بیچوں بیچ ۔ اور عمارت کو دیکھیں ۔ سورج کی ابتدائی کرنوں میں ایک دو قیمتی پتھر جگمگائیں گے۔پھر ایک ایک کرکے سب جگمگانا شروع کردیں گے ۔ ہر پتھر ایک قمقمے کی شکل اختیار کرلے گا۔ مبہوت کردینے والا یہ نظارہ پورے چاند کی رات میں بھی ایک نئے رنگ کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے ۔ اس مبہوت کن منظر پر بہت سے سیاح حیرت اور خوشی سے چیخ پڑتے ہیں یا بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں اور یہی بے ساختہ خراج تحسین ہوتا ہے ۔ مسلمانو ں پر تاریخی ورثوں کو برباد کرنے کا الزام دینے والے لوگ ذرا یاد رکھیں کہ 1857ء میں بغاوت ہند کے زمانے میں قیمتی پتھر لاجورد Lapis lazuli)) سمیت بہت سے قیمتی پتھر انگریزوں نے اکھاڑ لیے اور سامنے والے وسیع باغ کوجو اسلامی ،ایرانی ، مغل انداز کا چار باغ تھا، انگریزی طرز کے باغ میں بدل دیا ۔ لیکن وحشی پھر بھی ہم ہی ٹھہرے۔ مرکزی عمار ت زمین سے240 فٹ بلند ہے، یعنی قطب مینار دہلی سے بھی تین فٹ بلند ۔مقبرے کی عمارت ایک چوکور چبوترے پر قائم ہے جس کے چاروں کونوں پربلند مینار ہیں۔چالیس میٹر بلند یہ مینار قصدا 137فٹ کے فاصلے پر رکھے گئے اور انہیںپیازی شکل کے مرکزی گنبد سے نیچا رکھا گیا تاکہ مقبرے کی اصل عمارت نمایاں رہے ۔ یہ مینارمعمولی یعنی دو ڈگری باہر کی طرف جھکے ہوئے بنائے گئے ہیں۔یہ مغلوں کا خاص طریقہ تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی زلزلے کی صورت میں مینار اصل مقبرے پر نہ گر سکیں۔ کبھی لاہور میں جہانگیر کے مقبرے پر جائیں تو وہاں بھی آپ کو مینار معمولی سے باہر کی طرف جھکے ہوئے نظر آئیں گے ۔ مغلوں کے عام رواج کے مطابق اصل قبریں تہہ خانے میں ہیں جہاں تک عام آدمی کی رسائی نہیں۔جبکہ ان کے ٹھیک اوپر ہشت پہلو ایوان میںمصنوعی قبریں بنائی گئی ہیں ۔دونوں مصنوعی قبریں قیمتی پتھروں اور ننانوے اسماء الحسنٰی سے مزین ہیں ۔ اورہر سمت میں جھجھریاں( مر مر کی جالیاں) ان تک روشنی اور ہوا پہنچاتی ہیں۔ خطاطی کو دیکھیے تو بس دیکھتے رہیے۔ لفظ کاغذ پر لکھے گئے۔پھر پتھر پر اتارے گئے ۔پھر سنگ تراشوں نے ان لفظوں کی شکل میں سنگ مرمر کو کھودا اور جڑاؤ کاروں نے سنگ سیاہ روشنائی کی صورت میں بھر دیا۔ویسے تو دروازوں اور محرابوں پر بھی کمال کی خطاطی ہے۔ لیکن اس میں مزید کمال یہ ہے کہ خطاط کو معلوم تھا کہ بلند دروازے کی اونچائی پر لکھا ہوا لفظ چھوٹا دکھائی دے گا۔چنانچہ وہ نیچے سے اوپر کی طرف غیر محسوس طریقے سے ان حروف اور الفاظ کو بڑا کرتا گیا۔اس لیے سامنے کھڑے ہوئے شخص کواپنے قریب لکھا ہوا ا لف جس سائز کا نظر آرہا ہے اسی سائز کا الف چالیس فٹ بلندی پر بھی نظر آتا ہے ۔میں مقبرے کے اندرجنوبی محراب میں امانت خان شیرازی کے دستخط اور تاریخ رقم دیکھ رہا تھا، 1045 ہجری۔ یہ وہ فنکار ہے جس نے نہ حرف کی خوب صورتی میں فرق آنے دیا اور نہ تناسب کے حسن میں۔ تناسب اور موزونیت تاج محل پر ختم ہے ۔مقبرے کے دونوں طرف مسجد اورمہمان خانہ یکساں نقشے پر اور سنگ سرخ سے بنائے گئے تاکہ سنگ مرمر اور نمایاں ہو۔پانی کی نکاسی کے لیے ستاروں کی شکل والے سوراخ جو توجہ نہ دلائی جائے تو نظر بھی نہیں آتے، پرنالوں کا کام کرتے ہیں۔ 300میٹر لمبا اور 300میٹر چوڑا باغ چار یکساں قطعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چار کا عدد بھی معنی خیز ہے ۔ پختہ بلند راستے ان قطعات کو16پھولوں کے تختوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ایک تختے میں 400پودے لگائے گئے۔ درمیان میں فوارے اور نہریں جاری ہوتی ہیں۔یہ باغ سکون، ٹھنڈک بخشنے اور تاج محل کے بھرپور نظارے کے لیے بہشت مثال ہے ۔ مہمان خانے کے ذکر سے ایک اور بات یاد آئی ۔ معمار کو اعتماد تھا کہ پوری عمارت پتھر سے بنائی گئی ہے اور صدیوں قائم رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔تاہم مرکزی عمارت میں ایک چیز پتھر کی نہیں دھات کی ہے۔اور وہ ہے بڑے گنبد کا کلس یعنی (Finial) ۔ کیا آپ کواندازہ ہے کہ اس کلس کا قد کیا ہے؟ اونچائی پر نصب ہونے کی وجہ سے چھوٹا لگنے والا یہ کلس تیس فٹ لمبا ہے۔ ایک چوتھائی ٹن وزنی یہ کلس پیتل کا ہے۔ روایت ہے کہ یہ کلس ابتدا خالص سونے سے ڈھالا گیا تھا۔معمار کو فکر ہوئی کہ یہ دھاتی کلس مستقبل میں خراب ہوگیا تو دوبارہ کیسے بنے گا۔ چنانچہ اس نے مہمان خانے کے قریب فرش پر اس کلس کا پورا سائز نقشے کے مطابق بنادیا۔دیکھیے اور معمار کی فکر کو داد دیجیے ۔ سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر جمنا کو دیکھتے ہوئے مجھے یہی لگا کہ یہ ایک ہشت پہلو آنسو ہے جس کی ارجمند اور خرم کی محبت نے تجسیم کردی۔محبت کے علاوہ آنسو کی تجسیم اور بھلا کون کرسکتا تھا؟