شہزاد اظہر ایک بے پناہ شاعر اور ایک مضطرب تخلیقی روح تھا، اس کی زندگی میں توازن کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ وہ اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار میں بھی کچھ بڑبولا اور خطرناک حد تک صاف گو تھا۔زندگی اپنی شرطوں پر گزارنے والے ایسے لوگ زندگی میں خسارے تو کماتے ہی ہیں۔شہزاد اظہر بھی ایک ہی ایسا شخص تھا۔ زندگی میں تمام تر خساروں اور مسائل کے باوجود اس نے اپنے تخلیقی اظہار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور بقول افتخار عارف صاحب کے اپنے تخلیقی وجود کے پورے سرمائے کی قوت پر کلام کیا ہے۔ اس کی گواہی اس کے دو شعری مجموعوں " لہو کے ریشم سے "اور پل کی سلوٹ پہ" کے ایک ایک شعر سے ملتی ہے۔ ڈیڑھ برس پہلے وہ نیورو موٹرون ڈیزیز جیسی بیماری کا شکار ہوا۔ان کی قریبی دوست منفرد شاعرہ مہناز انجم نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے انہیں بتا دیا تھا کہ ان کے پاس جینے کو محض سولہ سترہ مہینے باقی ہیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ طرح دار شاعر زندگی کے ہاتھوں سے پھسلتا چلاگیا۔ عمر کی نقدی ختم ہو رہی تھی اور شہزاد اظہر نے ادھار کی حاجت کا آوازہ بھی نہیں لگایا بس ہمت اور حوصلے سے جیون کی ریت مٹھیوں سے گرتے دیکھتا رہا۔قریبی دوستوں نے اس کی کتابوں کی پذیرائی کی تقریبات کیں۔اسلام آباد راولپنڈی کے شاعروں ادیبوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مرتے ہوئے شاعر کی بھرپور پذیرائی کی۔ فرزند علی ہاشمی اور مہناز انجم کا نام اس حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ موذی مرض نے سب سے پہلے اس کی آواز پر حملہ کیا اور وہ بولنے سے قاصر ہو گیا تھا۔اس کے جسم کا ایک ایک حصہ موت کی وادی میں اتر رہا تھا ۔اس کا پورا وجود مفلوج ہو چکا تھا مگر تخلیقی ذہن چاک و چوبند تھا، احساس کی بھٹی ابھی اس مفلوج وجود میں سلگ رہی تھی، سو مرنے سے دو دن پہلے بھی وہ شعر کہتا رہا اور ایسے کہ پڑھنے والے پر بھی ایک کرب گزر جائے۔ افتاں و خیزاں یہ اڑائے لیے جاتی ہے مجھے اور میں چپ چاپ رخ باد فنا دیکھتا ہوں۔ اس شعر کے صرف دو دن کے بعد اس کی موت کی خبر آئی شعر و ادب کی دنیا میں اوریجنل شاعر کی ناگہانی موت کی خبر ایک دکھ کے ساتھ سنی گئی۔وی اپنے حصے کا بھرپور کام کر کے گیا ہے، اس کا ایک ایک شعر اس کے تخلیقی وجود کی گواہی دیتا رہے گا۔اس کالم کو لکھنے کا محرک شہزاد اظہر کی کم سن بیٹی ماورا بنی جو کلاس دوئم کی طالبہ ہے ،میں نے اس بچی کی ویڈیوز اس کے باپ کی موت کے بعد دیکھیں۔ یہ ایک عجیب ہی منظر تھا اس کا بیمار باپ خاموشی اوڑھے مشاعرے میں بیٹھا ہے اور وہ کم سن بچی سٹیج پر اپنے باپ کے زندگی کے کرب میں ڈوبے ہوئے اشعار اس طرح سے پڑھتی ہے گویا ایک ایک شعر اس کے اندر سے ہوکر آواز میں ڈھل رہا ہے۔ مثال سنگ خیال آئینے میں آتا ہے چٹخنے لگتا ہوں بال آئینے میں آتا ہے ہنر سے آتی ہیں آرائشیں محبت میں سلیقہ ہو تو جمال آئینے میں آتا ہے برنگ وحشت اسلوب شعر ہے میرا غزل کہوں تو غزال آئینے میں آتا ہے میلا پڑنے لگا احساس کا اجلا پن بھی گرد یک رنگئی اظہار سے باہر نکلو۔ دھوپ کہسار کے پیڑوں کی طرف آئی ہے۔ کونپلو برف کی دیوار سے باہر نکلو، بچوں کے لیے باپ ایک مضبوط سہارا ہوتا ہوتا ہے۔مگر ماورا کم سنی میں جس طرح اپنے مرتے ہوئے باپ کی آواز بنی اس نے میری آنکھیں نم کردیں۔ میں نے اس بچی کو دیکھا ہے ہے وہ اپنی عمر سے بڑھ کر ذہین ہے۔افتخار عارف نے تو یہ کہا تھا نا کہ گڑیوں سے کھیلتی ہوئی بچی کی آنکھ میں آنسو بھی آگیا تو سمندر لگا مجھے مگر یہاں معاملہ برعکس ہے کہ چپ کی چادر اوڑھے بیمار شہزاد اظہر آنسوؤں سے بھری آنکھیں لے کر اپنی گڑیوں سے کھیلتی ہوئی بیٹی کو زندگی کے سٹیج پر مشکل کردار ادا کرتے بے بسی سے دیکھتا ہے وہ اپنی آواز سے اپنے باپ کی چپ میں رنگ بھر رہی ہے جیو ماورا بیٹی۔ ماں باپ کے لیے کرب کا مقام ہے کہ وہ اپنے دکھ اپنے بچوں سے نہ چھپا سکیں ،ماورا بیٹی اپنے والد کی زبان بنی اس عمر کے بچے تو ڈھنگ سے اردو نہیں بول سکتے مگر وہ جس اعتماد اور جس اجلے لہجے میں پورے اعتماد کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں کی محفل میں بیٹھ کر اپنے والد کے اشعار پڑھتی اسے شاباش دینے کو دل چاہتا ہے۔ اس نے اپنے باپ کو لمحہ لمحہ مرتے ہوئے دیکھا اس نے اس کرب کو دیکھا جس سے اس کا باپ گزرا تھا،یہاں مجھے ایک افریقی کہاوت یاد آتی ہے۔ takes a village to rais a childبس اسی احساس کے ساتھ میں یہ کالم دکھ رہی ہوں کہ شاید کوئی سرکاری ادبی ادارہ طرف توجہ دے اور شہزاد اظہر کے اس ذہین بچی اور دوسرے اس کے بچوں کے لیے کوئی ایسا وسیلہ بنائیں کہ یہ بچے تعلیم کے مدارج آسانی سے طے کرسکیں۔ وہ اس ریاست کے بچے ہیں اور ماورا جیسے ذپین بچے تو پورے معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ اس کالم میں اکیڈمی آف لیٹرز کی چیئر پرسن محترمہ نجیبہ عارف صاحبہ سے خاص طور پر مخاطب ہوں اور یہ اتفاق ہے کہ میں دو روز پہلے بک ایکسپو سے ان کی کتاب راگنی کی کھوج میں لے کر آئی اور ان دنوں پڑھ رہی ہوں کہ وہ صاحب حال بابوں کی تلاش میں رہی ہیں، مجھے وہ خود بھی صاحب حال، صاحب درد معلوم ہوتی ہیں۔ اس پر اضافی خوبی یہ ہے کہ کہ وہ ایک ماں بھی ہیں، سو میری صاحب درد محترمہ نجیبہ عارف سے ایک درخواست ہے کہ وہ شہزاد اظہر کی ذہین بیٹی ماورا کو گلے سے لگائیں۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھیں شہزاد اظہر کے جانے کا اصل نقصان تو ماورا اظہر کا ہے۔ اس وقت وہ اکیڈمی آف لیٹر کی چئیر پرسن ہیں، ان کے پاس کچھ اختیار ہے تو وہ شہزاد اظہر کے بچوں کے لیے کوئی معاشی سہولت کا اہتمام کرنے کی کوشش ضرور کریں۔ شہزاد اظہر ہی کے ایک شعر پر کالم کا اختتام کرتی ہوں۔ ورق پہ تا ابد لہرائے گا مرا ہر لفظ مجھے مسافر راہ عدم نہ سمجھا جائے