علامہ اقبالؒ کی شاعری قرآنِ حکیم کے بحرِ بیکراں سے موتی چُن کر ترتیب دی گئی ہے۔ یہ صرف اور صرف مالکِ کائنات کی خصوصی عطاء ہے،جو اقبالؒ کے نصیب میں آئی۔اقبالؒاس سے باخبر تھے اور اپنے اس الہامی علم سے اُمت کو بیدار اور خبردار بھی کرتے رہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی جدید دَور کے ایک عظیم مفسرِ قرآن تھے۔ مرحوم نے ایک دفعہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم سے کہا تھا کہ میری پوری زندگی قرآن و حدیث پڑھنے،سمجھنے اور اسی کے متعلق تحریر کرنے میں گزر گئی۔میں نے جب قرآنِ پاک کی تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ تحریر کی تو یوں خیال کیا، جیسے بہت معرکہ مار لیا ہو،لیکن جیسے ہی میں نے علامہ اقبالؒ کو پڑھنا شروع کیا تو ایسے لگا کہ جیسے قرآن فہمی میں جہاں ہماری پرواز ختم ہوتی ہے، اقبالؒ کی پرواز وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ایسا فقرہ کہا جو اس قوم کی بدقسمتی پر دلالت کرتا ہے۔ کہنے لگے جس قوم کو اقبالؒ جیسا ھُدی خواں نہ جگا سکا، وہاں ہما شما کس کھاتے میں ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے دعوے کئے اور وہ روزِ روشن کی طرح سچ بھی ثابت ہوئے۔ انوارِ قرآن کے غوّاض اقبالؒ نے اپنے بارے میں اللہ کے حضور دُعا گو ہوتے ہوئے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے۔ فرماتے ہیں: گردلم آئینۂ بے جوہر است گر بحر فم غیرِ قرآں مضمر است پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن ایں خیاباں را زِ خارم پاک کن روزِ محشر خوار و رُسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پاء کن مرا ترجمہ: ’’اگر میرے دل کے آئینہ خانے میں کوئی خوبی نہیں ہے، اگر اس دل میں قرآنِ پاک کے سوا کوئی ایک حرف بھی موجود ہے، تو اے اللہ! میری فکر اور عزت و ناموس کا جو پردہ بنا ہوا ہے، اسے چاک کر دے اور اپنے اس خوبصورت باغ میں سے میرے جیسے کانٹے کو نکال پھینک۔ مجھے میدانِ حشر میں خوار اور رُسواکر دے اور مجھے رسول اکرمﷺ کے پائوں کے بوسہ سے بھی محروم کر دے۔‘‘ یہ دعویٰ اقبالؒ ہی کو زیبا تھا کہ مدتوں بعد، آج بھی اقبالؒ کے کسی نہ کسی شعر کے مفہوم میں چھپی ہوئی قرآنِ پاک کی کوئی آیت نظر آ جاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری کی پہلی کتاب ’’بانگِ درا‘‘ 1924ء میں شائع ہوئی، لیکن اس میں اقبالؒ کی گزشتہ پچیس سال کی شاعری کا انتخاب تھا، جو انہوں نے خود کیا تھا۔ یہ وہ دَور تھا جب یورپ دو اہم مادی نظریات سرمایہ اور محنت میں تقسیم ہو چکا تھا۔ روس میں 1917ء میں مزدوروں کی آمریت کی بناء پر بالشولکِ کیمونسٹ انقلاب لاکھوں افراد کی لاشوں پر سوار ہو کر آ چکا تھا اور بقیہ یورپ میں سُودی سرمایہ دارانہ معیشت اپنی جعلی مصنوعی کاغذی کرنسی کے بل بُوتے پر قائم تھی۔ جدید مغربی تہذیب کا تصورِ زندگی اسی معیشت کا اظہار تھا۔ دونوں بڑے نظام ہائے زندگی سے مذہب کو رخصت کر دیا گیا تھا۔ دونوں معاشروں سے اخلاق، اقدار، شرم و حیائ، خاندان، نسلِ انسانی کی تربیت، آخرت کا خوف یہ سب کے سب یا تو رخصت کر دیئے گئے یا پھر ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔ اس عظیم تبدیلی اور بدلتی ہوئی تہذیب اور معاشرت کو اگر کسی نے قرآن کے علم کی روشنی میں پہچانا تو وہ صرف اور صرف اقبالؒ تھے۔ صدیوں سے مفسرینِ قرآن ’’سورۃ الانبیاء ‘‘ کی آیات نمبر 95، 96 پر بغیر توجہ دیئے گزر جاتے تھے حالانکہ ان آیات میں ’’آخرالزمان‘‘ یعنی قیامت سے پہلے کے دَور کی اہم نشانی ’’یاجوج ماجوج‘‘ کا تذکرہ موجود تھا۔ ان دونوں آیات میں تو اللہ نے یاجوج اور ماجوج کے کھولے جانے کے بارے میں وقت کا بھی کسی حد تک اشارہ دے دیا تھا۔ فرمایا، ’’اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا، اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے حملہ آور ہوں گے‘‘۔ مفسرین اس بستی سے ہمیشہ سے یروشلم کی بستی تعبیر کرتے چلے آئے تھے۔ 1920ء میں یہودیوں کو یورپ کی اقوام نے واپس پروشلم کے آس پاس دوبارہ آباد کروانا شروع کیا جہاں سے وہ 70 عیسوی میں نکالے گئے تھے۔ اس ہجرت کا ذکر قرآن پاک میں یوں ہے۔ ’’پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے بندوں کو بھیج دیا تاکہ) وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پچھلی دفعہ کی طرح اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اُکھاڑ دیں‘‘ (بنی اسرائیل: 7)۔ یہ اس تباہی اور ہلاکت کا ذکر ہے جو رومن جرنیل ٹائٹیس نے یروشلم شہر میں برپا کی تھی۔ اس وقت سے لے کر 1920ء تک 1850 سال یہودی کبھی یروشلم میں واپس نہ آئے کیونکہ قرآن کے مطابق ان پر یہ بستی حرام کر دی گئی تھی، لیکن جیسے ہی ان کی آمد ہوئی تو رمز آشنائے قرآن اقبالؒ پکار اُٹھا کہ اگر یہودی یروشلم واپس آ چکے ہیں تو پھر اللہ نے یاجوج و ماجوج کو بھی یقیناً کھول دیا ہے اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ جدید مغربی تہذیب ہے۔ کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشم مسلم دیکھ لے تصویرِ حرف ینسلون اقبال کا یہ شعر آئندہ آنے والے حالات کی خبر بھی ہے اور مسلمانوں کیلئے آنے والے فتنوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار ہونے کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ لیکن یہ شعر اسی طرح ہی ہمارے اہلِ علم کی نظروں سے اوجھل رہا،جیسے ہمارے مفسرین ’’سورۃ الانبیائ‘‘ کی آیات سے خاموشی سے گزر گئے۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے ان آیات کے حوالے سے تھوڑی سی گفتگو ضرور کی اور مولانا فضل الرحمن انصاری نے بھی اسے موضوع بنایا لیکن شاید جدید مغربی تہذیب کا فسوں اس وقت تک پھیلا نہیں تھا،اس لئے ان احباب نے بھی بات آگے نہ بڑھائی۔ لیکن گزشتہ تین دہائیوں سے اللہ نے ایک ایسی شخصیت کو یہ توفیق عطا کی اور اس نے اپنے تمام علم، تحریر و تقریر کا موضوع ہی آخرالزمان کو بنایا اور یاجوج و ماجوج کے بارے میں اقبالؒ نے جو اشارے دیئے تھے ان کو اس طرح کھول کر بیان کیا کہ ہر بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی چلی گئی۔ اس شخصیت کا نام شیخ عمران حسین ہے، جنہوں نے زانوئے تلمذ مولانا فضل الرحمن انصاری کے ہاں طے کیا۔ مجھے عمران حسین سے متعارف آج سے بیس سال قبل خانہ کعبہ میں ایک یورپی مسلمان نوجوان نے کروایا جو صحن کعبہ میں بیٹھا ان کی کتاب ’’یاجوج اور ماجوج‘‘ کا مسلسل مطالعہ کئے جا رہا تھا۔ اس دن سے لے کر آج تک میں انہیں مسلسل پڑھتا اور سنتا چلا آ رہا ہوں۔ آج سے دس سال قبل 18 فروری 2012ء کو جب عالمی سُودی معیشت کے متبادل کی تلاش اور پاکستان میں سُودی نظام کے خلاف جدوجہد کیلئے ’’العلم ٹرسٹ فائونڈیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیاتو شیخ عمران حسین کی اسلامی معاشی نظام اور مغربی معیشت کے رو میں لکھی گئی تحریریں اور تقریریں ہمارے لئے مشعل راہ تھیں۔ انہی کے افکار سے متاثر عمر ابراہیم و ڈیلو نے درہم و دینار بنانے کی تحریک شروع کی تھی۔ عمر ابراہیم وڈیلو کو العلم ٹرسٹ نے جولائی 2012ء میں پاکستان مدعو کیا اور یہ ایک بہت بڑی تقریب تھی جس نے لاہور کے سب سے بڑے ہال ایوانِ اقبال کو بھر دیا تھا۔ ہماری خواہش تھی کہ ایک دن ہم شیخ عمران حسین کو بھی براہِ راست سن سکیں گے اور ان سے سوال جواب کر سکیں گے۔ ہماری خوش بختی ہے کہ وہ گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں ہیں، لیکن کرونا نے یہ موقع ہی نہیں دیا کہ ان سے وسیع پیمانے پر مستفید ہوا جا سکے۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود ’’العلم ٹرسٹ فائونڈیشن‘‘ نے آج مورخہ 7 اگست 2021ء بوقت تین بجے شام یہ اہتمام کیا ہے کہ ان کو براہِ راست سنا جا سکے۔ ان کی تقریر کا موضوع ’’مسیحاء قرآن اور آخر الزمان‘‘ ہے ۔ اور یہ تقریب ظفر علی خان ٹرسٹ آڈیٹوریم ، 21-C نون ایونیو مسلم ٹائون میں منعقد ہو گی۔ آڈیٹوریم میں جگہ بہت کم ہے، اس لئے کوشش کیجئے کہ وقت پر آئیں اور تمام احتیاط ملحوظِ خاطر رکھیں۔ مجھے علم ہے کہ تشنگانِ علم بہت ہیں، اس لئے اگر جگہ میسر نہ آ سکے تو پہلے سے ہماری معذرت قبول فرمائیں۔