معزز قارئین!۔  2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل ، صدر محمد ایوب خان نے ،متحدہ اپوزیشن کی امیدوار ’’مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ہرا دِیا تھا۔ صدارتی انتخاب میں ووٹ دینے کا حق ، مشرقی اور مغربی پاکستان کے 80 ہزار منتخب ’’ارکانِ بنیادی جمہوریت ‘‘ کو دِیا گیا تھا ۔ اگر پاکستان کے ہر عاقل و بالغ شخص ( مرد اور عورت) کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا تو ’’ مادرِ مِلّت ‘‘ ۔ صدر ایوب خان کو شکست دے دیتیں !‘‘۔ صدر محمد ایوب خان کے دَور میں کسی شاعر کی "Parody" (مضحکہ خیز شاعری) کا یہ شعر زباں زدِ عام تھا کہ …

میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے!

یہ اُس کا پاکستان ہے جو صدرِ پاکستان ہے!

یہ محض اتفاق ہے کہ صدر محمد ایوب خان کی کامیابی کے فوراً بعد 1965ء ہی میں ’’ نیشنل کونسل آف میوزک پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام پنجابی زبان کے 133 لوک گیتوں کا انتخاب 288 صفحات کی کتاب میں شائع ہُوا ۔ ایک لوک گیت کا عنوان تھا / ہے…

راولپنڈی دے بنگلے!

لوک گیت میں پنجاب کی ایک الہڑ مٹیار ؔاپنے ماہی ؔ( محبوب ) سے مخاطب ہو کر ’’راولپنڈی کے صدر بازار‘‘کی سَیر کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہتی ہے کہ  …

راولپنڈی دے اُچّے بنگلے!

سَیر تے کرنی آں صدر بازار دا ! 

لَے وے تیرا مینہا!

سانُوں سارا جگّ ماردا!

اُن دِنوں راولپنڈی کا صدر بازار "G.H.Q" سے کتنی دُور تھا ؟۔ کسی پنڈی وؔال کو معلوم ہوگا یا اشرافیہ کے اُن ارکان کو  جن کے پاس اِس طرح کا تعویذ ؔ ہوتا ہے کہ ’’ حامل رقعہ ہذا کو وزیراعظم یا آئینی صدرِ مملکت منتخب کرانے کا بندوبست کردِیا جائے ؟‘‘ ۔ ایسے ماہی ؔ ’’ میہنے (طعنے ) کی پروا نہیں کرتے۔ صدر پاکستان فوجی ہو تو، وزیراعظم اُس کا ماتحت ہوتا ہے اور اگر منتخب وزیراعظم طاقت وَر ہو تو صدر مملکت اُس کا ماتحتؔ ۔ فوجی یا صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دَور میں چار وزرائے اعظم ( نواز شریف ، ظفر اللہ خان جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز) ہنڈھائے ۔ پھر "N.R.O" کی برکت ؔسے طاقت وَر نان گریجویٹ صدر آصف زرداری نے دو وزرائے اعظم ( سیّد یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف ) کو ہنڈھایا۔

مُبینہ ؔطور پر طاقتور وزیراعظم میاں نواز شریف کے دوسرے دَور میں آئینی صدر جنرل محمد رفیق تارڑ تھے اور تیسرے دَور میں سیّد ممنون حسین ۔ طاقتور صدر آصف علی زرداری اور طاقتور وزیراعظم نواز شریف (اور 9 ماہ تک ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دَور میں ہمارے اکثر سیاستدان کسی مغربی مفکر کے اِس قول کی جُگالی ؔکرتے رہے کہ ’’ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے‘‘ لیکن کسی نے پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کو نہیں بتایا کہ وہ بہترین آمریتؔ کے انتظار میں کب تک بدترین جمہوریتؔ کو برداشت کرتے رہیں گے ؟۔

مختلف مقدمات میں سزا یافتہ نااہل وزیراعظم ، نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز اور دامادِ اوّل کیپٹن (ر) محمد صفدر سمیت جیل میں بھی "Active" ہیں۔ اُدھر جنابِ آصف زرداری اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ بھی عدالتوں کے چکروں کے باوجود نئے پاکستان کے ’’ طلوعِ آفتاب‘‘ کو اہمیت نہیں دے رہے ۔ معزز قارئین!۔ آج 4 ستمبر کے منعقدہ صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے جناب عارف اُلرحمن علوی کے مقابلے میں زرداری جی نے واقعی ہر لحاظ سے "Perfect" بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کو میدان میں اُتارا ہے لیکن ’’ قائداعظم ثانی ‘‘ کہلانے والے مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر نواز شریف نے کانگریسی مولویت کی باقیات فضل اُلرحمن صاحب سے اپنا ’’ بھائی چارا‘‘ نبھانے کے لئے اُنہیں صدارتی امیدوار نامزد کر کے کمال ہی کردِیا؟۔

بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اور فضل اُلرحمن صاحب کا سیاسی پس منظر مختلف ہے۔ اعتزاز صاحب کے (مرحوم ) دادا ، گجرات کے چودھری بہاول بخش تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن تھے ۔ اُنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے  1946ء کے تاریخ ساز انتخابات میں گجرات سے "Unionist Party" ۔ کے خان بہادر پیر محمد کو شکستِ فاش دِی تھی۔ اعتزاز احسن کے والد (مرحوم) چودھری محمد احسن نے 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کے حق میں بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی۔ جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد فضل اُلرحمن صاحب کے والد ِ (مرحوم ) مفتی محمود احمد کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘ ۔مفتی صاحب ’’مادرِ ملّت ‘‘ کے خلاف صدر ایوب خان کے عقیدت مند اور حمایتی تھے ۔ فضل اُلرحمن صاحب ’’ اگر پِدر نتواند ، پِسر تمام کُند‘‘ کی روشن مثال ہیں ۔ ہر دَور میں حکومت کے اتحادی اور مخالف یعنی۔ ’’ سائیاں کِدھرے تے ودھائیاں کِدھرے‘‘ ۔ 

بیرسٹر اعتزاز احسن سے فضل اُلرحمن صاحب کے تعلقات کی خاص ؔوجہ یہ ہے کہ ’’11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل 7 اپریل 2013ء کو جب سینیٹر اعتزاز احسن لاہور میں الیکشن کمیشن کے دفتر میں اپنی اہلیۂ محترمہ بشریٰ اعتزاز کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے گئے تو ،اُنہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مَیں اپنی  جورُو ( بیوی) کا غُلام ہُوں صدر آصف زرداری ، عمران خان ، نواز شریف اور مولانا فضل اُلرحمن بھی جورُو کے غُلام ہیں ۔ انگلستان کا شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار "Shakespeare" بھی اپنی جورُو کا غُلام تھا!‘‘۔اعتزاز صاحب کے اِس بیان پر ، زرداری صاحب ، عمران خان اور نواز شریف نے تو "Lightly"۔ لِیا لیکن مُبینہ طور پر ،فضل اُلرحمن صاحب نے اعتزاز صاحب کی اِس ’’جُگت‘‘ ( بزلہ سنجی ) کو دِل کا روگ بنا لِیا ہو ؟ ۔ وہ جناب عارف اُلرحمن علوی سے اکیلے ہارنا نہیں چاہتے، اعتزاز صاحب کو بھی ہرانا چاہتے ہیں ؟۔ علاّمہ اقبال ؒنے ، کسی مغربی مُفکر کے حوالے سے کہا تھا کہ …

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں!

بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!

معزز قارئین!۔ آثار تو یہی ہیں کہ جب آج شام / شب یا کل صبح۔ بندوں ؔ کی ( ووٹوں کی ) گنتی ہوگی تو عارف اُلرحمن علوی صاحب جیت جائیں گے لیکن فی الحال مَیں نے الیکٹرانک میڈیا پر ابھی تک یہ نعرہ نہیں سُنا کہ ’’ عارف علوی آوے  ای آوےؔ ‘‘  یا ’’ ساڈا علوی، آوے ای آوےؔ!‘‘۔ "Wikipedia" کے مطابق عارف اُلرحمن علوی پیشے کے لحاظ سے "Dentist" ہیں ۔ مَیں نے کل پھر ’’اوکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری ‘‘ دیکھی تو، "Dentist" کے معنی ہیں ۔ ’’معالجِ دنداں، جو دہانے ، جبڑوں ، دانتوں، مسوڑھوں وغیرہ کے امراض یا کیفیت کا علاج یا دیکھ بھال کرنے کا ماہر ہو ،  خصوصاً دانتوں کی درستی یا اُنہیں اکھاڑنے اور مصنوعی دانت لگانے کا دندان ساز!‘‘۔ معزز قارئین!۔ مجھے یاد آیا کہ 15 دسمبر 2012ء کو قومی اخبارات میں خبر شائع ہُوئی تھی کہ ’’ صدر آصف علی زرداری نے دور روز قبل کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ایک گھنٹے تک اپنے دانتوں کا "Checkup"کرایا ‘‘۔ اُس خبر پر 17 دسمبر کے میرے کالم کا عنوان تھا  ۔’’صدر زرداری کے دانت‘‘۔مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا تھا کہ۔ ممکن ہے کہ ’’ صدر زرداری اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف تندو تیز تقریریں کرنے کے لئے اپنے دانت تیز کروا رہے ہوں؟۔ ‘‘ 

کیا ہی اچھا ہوتا کہ ’’ اُس دَور میں اگر صدر زرداری ، جنابِ عارف اُلرحمن علوی کے "Clinic" گئے ہوتے توآج علوی صاحب کا انتخابی میدان میں بیرسٹر اعتزاز احسن سے واسطہ تو نہ پڑتا؟ ۔ بہرحال انتخاب ہار کر فضل اُلرحمن صاحب کو تو بہت ہی مشکل پیش آئے گی۔ ’’کُرسی ٔ صدارت کا خواب ‘‘ اگر شرمندہ ٔتعبیر نہ ہُوا تو نہ جانے اُنہیں اپنے حلقہ ٔ انتخاب میں کتنا شرمندہ ہونا پڑے گا؟ ۔ اُنہیں تو ، پنجابی لوک گیتوں اور موسیقی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کوئی اُنہیں ، ’’راولپنڈی دے اُچّے بنگلے‘‘ اور ’’سَیر تے کرنی آں صدر بازار دا ‘‘  گُنگنا کر بہلانے کا جتن کرسکے؟۔