شیخ ایاز نے اپنی ایک نوٹ بک میں لکھا ہے کہ جب اس نے ایک کرپٹ بیوروکریٹ کی منہ سے فیض احمد فیض کے یہ اشعار سنے: ’’پیو کہ مفت لگادی ہے خون دل کی کشید گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں‘‘ تو ان کو ایسا لگا جیسے فیض احمد فیض کی شاعری کی توہین ہو رہی ہے۔ کیوں کہ فیض احمد فیض نے تو ساری زندگی غریبوں اور خاص طور پر محنت کش عوام کے لیے شاعری کی تھی۔ جب غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال کرنے والا طبقہ فیض احمد فیض کی شاعری کو گنگناتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اپر کلاس یا امیر طبقہ اس شاعری پر بھی قبضہ کر رہا ہے جو شاعری فیض صاحب نے اس وطن اور ساری دنیا کے غریبوں اور محنت کشوں کے لیے دل سے کی۔ فیض احمد فیض نے بڑے دکھ دیکھے مگر انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے کبھی بھی سسٹم کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ ان کو یقین تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب انصاف ہوگا اور وہ تاریخ کا عظیم انصاف ہوگا۔ اس لیے اپنے دل کے دھڑکن پر انہوں نے اس نظم کو تخلیق کیا تھا کہ: ’’ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل پر لکھا ہے جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ بھی دیکھیں گے‘‘ فیض صاحب کے ان الفاظ اور ان کے ردم میں ڈولتا ہوا تصور کس قدر امید سے بھر جاتا ہے۔ جب ہم اس قسم کے گیت سنتے ہیں تو ہم کو یقین آجاتا ہے کہ خواب حقیقت میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ مگر جب ان خوابوں پر شب خون مارنے والا طبقہ فیض احمد فیض کے انقلابی اشعار فیشنی دانشوری دکھانے کے لیے گنگناتا ہے تو وہ بات کس قدر بری لگتی ہے۔ وہ بات اس قدرر بری لگتی جس قدر ہمارا حزب اختلاف پھر وہ چاہے پی ڈے ایم کے شکل میں ہو یا پیپلز پارٹی کی صورت میں ہو؛ وہ پارٹیاں جن کے ورثاء جو منہ میں چاندی کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے؛ جب کہ ملک میں موجود غربت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں اور جب وہ بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ وزیرعمران خان کو ہٹائیں گے اور غربت کا خاتمہ لائیں گے اس وقت دل بہت دکھتا ہے۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں اگر ملک میں غربت ہے اور اگر پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود قرضوں میں جکڑا ہوا ہے تو اس جرم میں کچھ نہ کچھ کردار ان سابق حکمرانوں کا بھی جو اس وقت اپنے بچوں کو حکمرانی کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ میں جانتے ہیں اور اگر ہم نہیں جانتے تو ہم کو جاننا ہوگا کہ سابق حکمرانوں کے بچے جب بوڑھے ہوجائیں گے تو پھر وہ اپنے بچوں کو ملک پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار کریں گے اور جب بھی یہ لوگ حکمران بننے کی کوشش کریں گے تب وہ غربت اور غریبوں کی بات کریں گے۔ اس وقت بھی حزب اختلاف کے پا س سب سے بڑ اشو غربت اور مہنگائی کا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ملک میں مہنگائی نہیں ہے تو پھر یا وہ بہت بڑا جھوٹا ہوگا یا بہت ہی زیادہ کرپٹ! کیوں کہ جن کے پاس بہت ساری دولت ہے؛ جن جا کچن اپنی جیب سے نہیں بلکہ ملکی وسائل سے چلتا ہے ان کو کیا معلوم ہے کہ آٹے اور دل کی قیمت کتنی ہے؟ ان کو پکی پکائی اور فرمائشی روٹی ملتی ہے۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ ایک غریب کا سراسری آمدنی کتنی ہوتی ہے اور اتفاق کے ساتھ کسی پس ماندہ علاقے میں اس کا اپنا گھر بھی ہو تو وہ بارہ پندرہ ہزاروں کی آمدنی سے زندگی کی ضروریات کو کس طرح پورا کرسکتا ہے؟ جب کہ ایک صحت مند انسان بیمار بھی ہوتا ہے اور اس کے بچے اسکول بھی جاتے ہیں۔ اس کو اپنی غربت کا بھرم رکھنے کے لیے لباس بھی درکار ہے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی ملک کی دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی موجودہ اور متحرک قیادت کو معلوم ہے کہ غربت کس چڑیا کا نام ہے؟کیا مریم نواز صاحبہ جانتی ہے کہ جب بچہ بخار سے تپ رہا ہو اور گھر میں پیناڈول کی بوتل نہ ہو تو ایک ماں کیسا محسوس کرتی ہے؟ کیا بلاول بھٹو زرداری صاحب جانتے ہیں ایک کسان کا گھر کس طرح چلتا ہے؟ کیا ان کو معلوم ہے کہ غربت کے سبب جب جوان بیٹی کی مانگ میں چاندی چمکنے لگے تب والدین کیسا محسوس کرتے ہیں؟اس سسٹم میں امیر سے امیر تر ہونے والے سیاستدان کبھی نہیں جانتے اور وہ جان بھی نہیں پائیں گے کہ غربت کیا ہوتی ہے اور اس کا منحوس سایہ انسان کی زندگی کو کس طرح زہر میں تبدیل کردیتا ہے؟ وہ نہیں جانتے۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ غربت کا نام لیکر اور غریبوں کی بات کر کے وہ اقتدار کے قریب کس طرح پہنچ سکتے ہیں؟ ا س لیے انہوں نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مہنگائی کے خلاف تحریک شروع کی ہے۔ اگر وہ واقعی محب وطن ہوتے یا غریبوں کے لیے ان کے دل میں احساس ہوتا تو وہ حکومت کے ساتھ بیٹھتے اور این آر او مانگنے کے بجائے پاکستان کو غربت اور قرضوں سے نکالنے کا لائحہ عمل بناتے۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ حزب اختلاف میں بیٹھ کر بھی عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ مگر ہمارے حزب اختلاف کے لیے غربت دل دکھانے والی چیز نہیں ہے۔ ان کے لیے غربت محض ایک ایشو ہے۔ ایک سیاسی ہتھیار کو عمران خان کی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ عمران خان کی طرز حکمرانی کیسی ہے؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔ عمران خان پر تنقید کرنے کا مطلب یا نہیں کہ ایک بندہ اس حزب اختلاف کا حصہ بن جاتا ہے جو حزب اختلاف ’’غربت‘‘ نامی کھیل پیش کرنے کے لیے سیاسی اسٹیج کو سجاتی ہے۔ جو جلسہ گاہ جو بینروں سے اور پرچموں سے سجاتی ہے۔ جو معزز صحافیوں کی خدمت میں کوئی کمی نہیں ہونے دیتے۔ جو ساؤنڈ سسٹم پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے۔ جو اپنی حمایت میں گیت لکھواتے ہیں۔ موسیقاروں اور فنکاروں کو پیسے دیکر دھنیں بنواتے ہیں۔ وہ گیت ریکارڈ کرواتے ہیں اور ساؤنڈ سسٹم کو چلانے کے لیے ماہر شخص کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ بلیٹ تو کیا بم پروف گاڑی سے نکلتے ہیں تو ان کا لباس قابل دید ہوتا ہے۔ وہ جس انداز کے ساتھ ہاتھ لہراتے ہوئے اسٹیج پر آتے ہیں ان کے اس اسٹائل میں پیسے کی چمک ہوتی ہے۔ آس پاس کے لوگ بریانی کھانے کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں۔ تالیاں بھی بجاتے ہیں اور نعرے بھی لگاتے ہیں۔ اور اگر ان کو کونے میں کھڑا کرکے ان سے پوچھا جائے تو وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’جناب! سیاست کی حمام میںسب ایک جیسے ہیں‘‘ کیا اس ملک کا عام آدمی نہیں جانتا کہ ان امیر رہنماؤں کے جوتے اور ان کا لباس کتنا مہنگا ہوتا ہے؟ عام آدمی سب جانتا ہے!!!