عدلیہ کے فیصلوں پر مناسب پیرائے میں علمی تنقید ایک الگ چیز ہے اور ایک کارٹل کی صورت بروئے کار آتے ہوئے عدلیہ کی تذلیل اور تضحیک بالکل ایک دوسری چیز ہے۔اول الذکر ایک ضروری چیز ہے اور نظام انصاف کی جورسپرسڈنس کے ارتقائی عمل میں معاون کا کردار ادا کرتی ہے لیکن دوسرا رویہ تباہ کن ہے اور تخریب کے سوا اس کا کوئی عنوان نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ ہے کہ تضحیک اور تذلیل پر مبنی اس رویے کو کب تک برداشت کیا جائے گا؟اصلاح احوال کی کوئی صورت ہے یا نہیں ؟ ہمارے سامنے کی چیز ہے کہ سیاسی معاملات عدالت میں آتے ہیں اور پھر مرضی کا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں عدلیہ تنقید کی زد میں آتی ہے۔ یہ تنقید قانونی نکتے پر ہو اور مناسب پیرائے میں ہو تو یہ ایک مفید عمل ہے لیکن ہمارے ہاں اس تنقید کا تعلق اب علم ، دلیل اور قانون کی بجائے وابستگی اور عصبیت سے بڑھتا جا رہا ہے ۔ تازہ رجحان یہ ہے کہ فیصلے سے پہلے ہی عدلیہ کے خلاف ایک بھرپور مہم چلا دی جاتی ہے اور یہ مہم چلانے والے شاید اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ ان کی ابلاغ کی غیر معمولی قوت سے ڈر کر سہم جائے گی اور فیصلے ان کی مرضی سے ہونے لگیں گے۔ یہ رویہ معاشرے اور ریاست کے لیے تباہ کن ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ محض قانون کا مخاطب نہیں بلکہ ایک سماجی معاملہ بھی ہے اور اسے محض قانون کے نفاذ سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے لیے ایک ہمہ جہت حکمت عملی مرتب کرنا ضروری ہے۔ ایک طالب علم کے طور پر چند چیزیں میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں ، لیکن حکمت عملی کی یہ فہرست ، ظاہر ہے کہ ، ان نکات تک محدود نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں معاشرے میں قانون کا فہم عام کرنے کی ضرورت ہے۔ فہم سے مراد یہ نہیں ہے کہ سارامعاشرہ ہی’ ایل ایل بی‘ ہو جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ عمومی سطح پر لوگوں کو قانون اور اس کی مبادیات سے اتنی آگہی ضرور حاصل ہو جائے کہ وہ بات کو قانونی پیرائے میں سمجھ سکیں۔ ہمارا قانون ایک اجنبی زبان میں لکھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے اپنا دستور بھی ایک اجنبی زبان میں لکھ رکھا ہے۔ ہماری پارلیمان کا تین چوتھائی نہیں تو کم از کم نصف اس قانون اور اس آئین کو سمجھنے سے بڑی حد تک قاصر ہے۔ عام آدمی کو نصاب تعلیم میں کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ قانون کیا ہوتا ہے اور آئین کیا چیز ہوتی ہے۔ حتی کہ لوگوں کو آج تک کسی بھی سطح پر کسی نے بھی بنیادی انسانی حقوق تک بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب بھی کوئی قانونی مسئلہ سامنے آتا ہے تو معاشرے کی اکثریت کے لیے یہ بھوتوں اور پریوں کی کہانی جیسا معاملہ ہوتا ہے۔ ان کا اپنا علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ جو بھی ہوتا ہے سنی سنائی پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کی معلومات کا واحد ذریعہ ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں مختلف قانون دانوں اور وکلاء کی آراء ہیں۔ وکلاء کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انصاف کی بات نہیں کر رہے ہوتے ، وہ صرف اپنے موکل کے مفاد کی بات کر رہے ہوتے ہیں جو کبھی مبنی بر انصاف بھی ہو سکتی ہے اور کبھی انصاف سے ہٹ کر بھی ہو سکتی ہے۔ قانون مناظرہ نہیں ہوتا کہ دو چار دلیلوں سے بندہ ’ پھڑکا‘ دیا جائے۔ یہاں دلیل قانون پر پرکھی جاتی ہے ۔ عام آدمی پرکھنے کے اس عمل سے قبل ہی اپنے اپنے گروہ کے وکیل کی رائے کو حرف آخر سمجھ کر محاذ سنبھال لیتا ہے اورا س کے بعد سوشل میڈیا پر مورچے سج جاتے ہیں اور میدان جنگ کا منظر نامہ مرتب ہو جاتا ہے۔ اس رویے کا خاتمہ قانون فہمی کے فروغ سے ہی ہو سکتا ہے اور قانون فہمی کا فروغ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشرے کو اس کا قانون اس کی زبان میں دیا جائے۔ اگر کامن لا کا نو آبادیاتی ورثہ ہم نے اسیی طرح رکھنا ہے تو اس کی تو سکیم ہی یہی ہے کہ قانون عام آدمی کی سمجھ سے دور رہے اور وہ قدم قدم پر وکلاء کے محتاج رہیں۔ بس ایک محدود تر اشرافیہ ہو جو قانون کا فہم رکھتی ہو۔ اس سکیم کو بدلے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ دوسرا مرحلہ معاشرے میں ریاست ، سماج اور قانون کے باہمی تعلق کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے کا ہے۔ بظاہر اچھے خاصے تعلیم یافتہ ، معاف کیجیے گا ڈگری یافتہ لوگ بھی اس بات سے لا علمی کی حد تک بے نیاز پائے جاتے ہیں کہ ریاست ،حکو مت اور آئین و قانون کا باہمی تعلق کیا ہے۔ یہاں امور سیاست و حکومت میں آئین و قانون حرف اضافی کے سوا کچھ نہیں۔ لوگوں کے اپنے اپنے گروہ ہیں اور اپنے اپنے قائدین۔ اپنے اپنے قبیلے ہیں اور اپنے اپنے خان ۔ بنیادی چیز ان گروہوں قبیلوں اور سرداروں اور خانوں کا مفاد ہے۔ آئین اور قانون اگر ان مفادات سے ہم آہنگ ہیں تو ہر کوئی ان کی بات کرے گا ۔ وہ اگر ان سے ہم آہنگ نہیں تو پھر قبیلے اور اس کے خان کا مفاد آئین و قانون پر مقدم سمجھا جاتا ہے۔اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سماجیات کے نام سے ایک مضمون ہر سطح پر پڑھانے کی ضرورت ہے۔ آپ کسی بھی شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں ، آپ بہر حال اس سماج کا حصہ ہیں اور آپ نے اس میں رہنا ہے۔ اس لیے یہ بطور لازمی مضمون ہر سطح پر پڑھایا جانا چاہیے۔ اور اس میں اختلاف رائے کے آداب سمیت سماجی تہذیب و شائستگی کی وہ بنیادی باتیں پڑھائی جائیں جن کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ ہمارے ٹاک شوز بھی پورا ایک المیہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہاں مکالمہ نہیں مجادلہ ہوتا ہے۔ یہاں سے انتشار فکر پیدا ہو رہا ہے۔ سنجیدہ اہل صحافت میں بھی اب ریٹنگ کی دوڑ میں بھاگنے کا رجحان فروغ پاتا جا رہا ہے۔ اس ساری مشق میں معاشرے کو سطحیت ، تعصب ، زبان درازی ، مبالغے اور تلخی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔ ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم ترین چیز یہ ہے کہ خود عدلیہ کو بھی اپنی کارکردگی پر غور کرنا ہو گا۔مختلف اوقات کے نظریہ ہائے ضرورت نے اس کے بھرم کو گھائل کر رکھا ہے۔ خود جناب قاضی فائز عیسی صاحب نے وکلاء کنونشن میں جب خود سے پوچھا گیا یہ سوال شرکاء کے سامنے رکھا کہ کیا آپ ہمارے نظام انصاف سے مطمئن ہیں تو کسی ایک وکیل نے بھی ہاتھ کھڑا نہیں کیا تھا۔ اس پر قاضی صاحب نے اس نظام انصاف کو ایف گریڈ دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کے مطابق ایک عام دیوانی مقدمے کے حتمی فیصلہ ہونے میں اوسطا پچیس سال لگتے ہیں۔ پچیس سال کا مطلب ایک نسل ہے۔یہ کوئی معمولی المیہ نہیں ہے۔لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ کام خود عدلیہ ہی کر سکتی ہے۔ ہمیں اس معاشرے کو تعمیر کرنا ہے اور سماج کی تعمیر ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔کرنے کا کام مگر یہی ہے۔