ان دونوں شخصیات نے اپنی عملی زندگیوں کا آغاز وکالت کے مقدس پیشے سے کیا۔اْس وقت کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ دونوں شخصیات وطن عزیز پاکستان میں دوالگ الگ نظریات کا استعارہ بن جائیںگی‘ایک امرتسر میں 1895ء میں پیدا ہوئے‘ان کا نام جسٹس محمد منیر تھا‘جسٹس منیر 1954ء سے 1960ء تک چیف جسٹس آف پاکستان رہے‘جسٹس منیر نے 24اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے اسمبلی تحلیل کرنے پر وطن عزیز میں ’’نظریہ ضرورت‘‘کی بنیاد رکھی، جس کے تحت ملک کا پہلا آئین معطل ہوکر رہ گیا‘ جسٹس منیر کو ہمیشہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی بابت یاد رکھا جاتا ہے‘ سیاسی حلقے‘وکلاء حلقے بھی ا ن کے نظریہ ضرورت کا ذکر اذکارکرتے رہتے ہیں۔جسٹس منیر نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان تھا ’’جناح ٹو ضیاء ‘‘اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بانی پاکستان سیکولر سٹیٹ کے حامی تھے‘جسٹس منیر 1979ء کو 83 سال کی عمر میں وفات پاگئے لیکن ان کا نظریہ ضرورت آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔دوسری شخصیت ملک محمد رستم کیانی کی ہے‘جنہیں ایم آر کیانی اور جسٹس کیانی کے نام سے بھی تاریخ میں جانا جاتا ہے‘جسٹس کیانی 18اکتوبر 1902ء کو کوہاٹ کے نزدیک شاہ پور گاؤں میں پیدا ہوئے‘انہیں 1958ء میں مغربی پاکستان کا چیف جسٹس بنا دیا گیا اور وہ 1962ء تک اس عہدے پر فائز رہے‘ جسٹس ایم آر کیانی کو ایوب خان کی آمریت کی مخالفت کی بنیاد پر تاریخ میں سنہری حروف کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے‘ وہ 1956ء میں سول سروس آف پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر بھی منتخب ہوئے‘ بطور چیف جسٹس وکلاء کی مختلف تقاریب میں ان کی تقاریر قومی میڈیا کے ذریعے خوب پذیرائی کا باعث بنیں۔ زندگی کے آخری چار سال میں وہ ملک کے سب سے مقبول مقرر تصور کئے جانے لگے‘ ان کی تقاریر مختلف کتابوں کی صورت میں موجود ہیں‘ جیسے افکارپریشان وغیرہ‘ ایم آر کیانی اکتوبر 1962ء میں ریٹائرڈ ہوگئے‘ انہیں ایوب خان کی آمرانہ حکومت پر سخت تنقید کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچنے کا موقع نہیں ملا، تاہم ان کے اعزاز میں ان کی ریٹائرمنٹ پر لاہور میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں انہیں ’’لسان پاکستان‘‘ یعنی پاکستان کی آواز کا خطاب دیا گیا جس پر انہوں نے کہا کہ یہ اعزاز ان کے نزدیک نشان پاکستان سے زیادہ قیمتی ہے‘ اس کے بعد بھی وہ عوام کا جذبہ بلند رکھنے کیلئے اپنی جرات مندانہ تقاریر کرتے رہے‘ جن میں وہ مزاح کا استعمال کرکے آمریت کی گھٹن میں عوام کی پریشانی کم کیا کرتے تھے‘ نومبر1962ء میں انہیں مشرقی پاکستان کی بار ایسوسی ایشنز ڈھاکہ‘ راج شاہی اور چٹا گانگ نے مدعو کیا اور 15نومبر 1962ء میں چٹا گانگ کے سرکٹ ہاؤس میں ان کی وفات ہوئی‘ ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی آدھی تقریر اس وقت ان کے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر پڑی تھی‘ وقت گزرتا گیا لیکن جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی آج بھی ہماری عدلیہ کے حوالے سے دو مختلف نظریات کے استعارے کے طور پر جانے جاتے ہیں‘ یہ انتہائی تلخ اور کٹھن حقیقت ہے کہ ہر حکمران چاہے وہ فوجی ہو یا جمہوری‘ اس نے ہر دور میں عدلیہ کی آزادی کو صلب کرنے کی کوشش کی اور جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے کردار سامنے آتے رہے ہیں اور شاید آتے رہیںگے‘ ایوب خان کے دور کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977ء کو گرفتار کرکے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا‘ بھٹو پر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ چلا۔ بھٹو کی گرفتار کے بعد جسٹس کے ایم صمدانی نے بھٹو کو ضمانت پر رہا کردیا جس کے بعد مبینہ طور پر جسٹس صمدانی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا اور تین دن بعد بھٹو کو دوبارہ اسی کیس میں مارشل لاء کے تحت گرفتار کرلیا گیا‘ اس دوران ہائی کورٹ میں نئے ججز تعینات ہوئے اور مولوی مشتاق حسین کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا، مولوی مشتاق کا تعلق ضیاء الحق کے آبائی شہر جالندھر سے تھا جبکہ بھٹو اپنی کتاب ’’ AM ASSASINATED IF I ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مولوی مشتاق حسین میرے صدر بننے کے فورا بعد پنجاب ہاؤس راولپنڈی میں ملے اور بلا جھجھک خواہش ظاہر کی گئی کہ ملک تاریخ کے انتہائی نازک مرحلے پر ہے لہذا عدلیہ کا انچارج کوئی قابل اعتماد شخص ہونا چاہیے لیکن جب سردار محمد اقبال کو میری حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا تو وہ اپنی ناراضگی نہ چھپا سکے جس کا اظہار انہو ں نے سرکاری حیثیت میں بھی کیا‘ انہوں نے پنجاب کے سابق گورنر غلام مصطفی کھرل کو مشورہ دیا کہ میرے سر میں گولی مارکے مجھے ختم کردیا جائے‘ بھٹو کو بعد ازاں انہی مولوی مشتاق نے سزا دی. چند سال قبل سپریم کورٹ کے جس بنچ نے بھٹو کے خلاف سزائے موت کی سزا برقرار رکھی تھی‘ اس کے ایک معزز رکن جج جو بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان بنے‘ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کے کیس میں ضیاء الحق کی حکومت کا بہت دباؤ تھا‘ جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی کی سوچ تاریخ میں بار بار ملتی ہے۔ 1997ء میں وزیر اعظم نواز شریف تھے‘ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے قیام اور 14 ویں ترمیم کے ایشو پر مختلف سیاسی پارٹیاں یہ معاملات سپریم کورٹ میں لے گئیں، اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ نواز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے عدالتی کارروائی کے دوران سخت جملوں کا تبادلہ کیا اور ان پر توہین عدالت لگا دی گئی‘جس کے بعد 30 نومبر 1997ء کو نواز شریف سپریم کورٹ میں اپنے پارٹی ورکروں‘ ممبران‘ وزراء اعلی کے ساتھ پیش ہوئے، اس دوران مسلم لیگ ن کے درجنوں حامیوں اور ان کی ذیلی تنظیموں جیسے ایم ایس ایف نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا، یہاں تک کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنا کورٹ روم چھوڑنا پڑا اور مسلم لیگ ن کے حامیوں نے عدالت میں موجود پیپلز پارٹی کے سینیٹر اقبال حیدر پر بھی تشدد کیا جبکہ عدالت میں لگی قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر بھی توڑ دی گئی‘گویا حکمران اپنے خلاف عدالتوں کی آئینی جرات اور صداقت کو کم ہی برداشت کیا کرتے ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہونے جارہے ہیں، انکی سربراہی میں سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن میں ججز پر حکومتی اعتراض مسترد کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قراردے دیا ہے، تاریخ پر فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ وہ انھیں کس طرح یاد کرتی ہے؛ ایم آر کیانی یا جسٹس منیر؟