اسلام آباد(خبر نگار،نیوز ایجنسیاں)عدالت عظمٰی نے آرٹیکل 63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس لارجر بینچ میں سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے عدم اعتماد سیاسی معاملہ ہے ،سیاسی جنگ پارلیمنٹ میں لڑی جائے ۔ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سیاسی جلسے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بارکی درخواست پربھی سماعت کی،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ، سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے لہٰذا بہتر ہوگا اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے ، ہم زیادہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتے ،عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کے سبب کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہ جائے ، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے ، عدالت صرف یہ چاہتی ہے کسی کا حق متاثر نہ ہو۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سیاسی جماعتوں سے جامع جواب طلب کرتے ہوئے قرار دیا حکومتی اتحادی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری نہیں کررہے لیکن کوئی حکومتی اتحادی سیاسی جماعت چاہے تو جواب جمع کراسکتی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا جواب مختصر اور جامع ہو،ضروری ہوا تو وکلاء کو سنیں گے ،جتھے لاکر کسی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیں گے ،ہم پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتے ، عدم اعتماد کیلئے وہی طریقہ کار ہوگا جو آئین میں ہے ،قواعد وضوابط نہیں دیکھ سکتے ،معاملے کے آئینی پہلو کو دیکھیں گے ، حساس موقع ہے ، تمام سیاسی طاقتیں احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے جمہوریت کو مضبوط اور اجتماعی سیاسی دانش ،ہم آہنگی ،وقاراور بالغ نظری سے معاملہ حل کریں، کسی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا سوال ریفرنس میں نہیں اٹھایا گیا، ہم یہ نہیں ہونے دینگے کہ صدارتی ریفرنس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار ہو، کوشش کریں گے جلد ریفرنس پر فیصلہ دیں۔جسٹس منیب اختر نے کہاپارلیمنٹ کی کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی،سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے انتظامی اتھارٹی حکومت کے غیر قانونی احکامات کی پابند نہیں ،63اے کے نتائج اپنی جگہ ہونگے لیکن عدم اعتماد کے پراسس کو نہیں روکا جائے گا۔اٹارنی جنرل نے کہامیری ذاتی رائے ہے منحرف رکن کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا، اراکین کو اسمبلی پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مسئلے پر وزیراعظم سے بات کی، حلفاً کہتا ہوں اجلاس کے دن کسی کو اسمبلی آتے وقت ہجوم سے گزرنا نہیں پڑے گا، تحریک عدم اعتماد کے دن اسمبلی کے باہر کوئی جتھہ نہیں ہو گا،سندھ ہاؤس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا،وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، وزیراعظم سے گفتگو کے بعد عدالت کو واضح کرنا چاہتا ہوں کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کررہے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی، کوئی رکن اجلاس میں نہ آنا چاہے تو زبردستی نہیں لایا جائیگا، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا، اس نکتے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں البتہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ ڈالنے پر آرٹیکل63 اے کی کارروائی ہو گی، شہید بے نظیر بھٹو کیخلاف عدم اعتمادپر اراکین اسمبلی کو اٹھایا گیا،حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرے گی،پارلیمانی کارروائی آئین کے مطابق ہوگی، صدارتی ریفرنس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی کارروائی بھی متاثر نہیں ہوگی، ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہوگا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے ۔جسٹس منیب اختر نے کہاصرف تحریک عدم اعتماد کے دن نہیں بلکہ اجلاس کے باقی دنوں میں بھی ہجوم نہیں ہونا چاہئے ۔سپیکر کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس آئین میں متعین مدت کے اندر نہ بلانے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا لیکن چیف جسٹس نے کہا اجلاس میں تاخیر کی وجوہات سپیکر قومی اسمبلی نے بیان کی ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاسپیکر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے حالانکہ آرٹیکل54(3) کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے ، 14 دن سے زیادہ اجلاس میں تاخیر کرنے کا کوئی استحقاق نہیں، تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہئے ۔چیف جسٹس نے کہاووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے ، یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے ،ہم نے صرف دیکھنا ہے کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، جو نکات آپ اٹھارہے ہیں وہ سپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے پوچھا بتائیں آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکتا ہے ، بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟،آرٹیکل پچانوے کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے ، رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں،نواز شریف اور بینظیر بھٹو کیس میں عدالت آبزرویشن دے چکی۔منصور اعوان نے کہا آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسمبلی سپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا سوال یہ ہے ذاتی چوائس پارٹی موقف سے مختلف ہو سکتی ہے یا نہیں؟،کیا ووٹ کا حق کسی رکن کا مطلق حق ہے ؟۔بار کے وکیل نے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیاتو جسٹس منیب اختر نے کہایہ تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا آپ بار کے وکیل ہیں ،آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟، بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے ۔وکیل نے کہا تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے ۔چیف جسٹس نے کہابار بار پوچھ رہے ہیں سندھ ہاؤس میں کیا ہوا؟ ،بار ایسوسی ایشن کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے ؟۔چیف جسٹس نے کہا اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے ،سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں اور بتائیں کیا چاہتی ہیں، سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے ، حساس وقت میں مصلحت کیلئے کیس سن رہے ہیں، ہمارے پاس دستاویزات نہیں کہ 25 مارچ کو اسمبلی اجلاس بلانے کی کیا وجہ ہے ، اس عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنا ہے ، ہمیں 24 تاریخ کو مواد لاکر دکھا دیں، اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں تو کوڈ آف کنڈکٹ بنا لیں گے ۔پی پی پی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا سپیکر نے بروقت اجلاس نہیں بلایا۔ چیف جسٹس نے کہا سپیکر کی رولنگ عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ،سپیکر پر کوئی اعتراض ہو تو پارلیمنٹ میں اٹھائیں ، کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکٹھے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں، ایک جماعت جہاں جلسہ کر رہی ہو وہاں دوسری کو اجازت نہیں ہوگی ۔نیوز ایجنسیوں کے مطابق سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس میں نوٹس جاری کردیئے ،لارجر بنچ سماعت 24 مارچ کو کریگا۔