اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد جو خوش نصیب دم آخر تک اس پر قائم رہے ۔ اُنہیں عرف عام میں حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پکارا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر ان حضرات صحابہ کرام کے فضائل، شمائل، خصائل، محامد و محاسن انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ غزوہ اُحد کے دن جب مسلمانوں کو ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا، اس وقت خبر ملی کہ کفار پھر سے حملہ آوار ہونے والے ہیں، جبکہ مسلمان شکستہ، زخم آلود تھے ، اس کے باوجود اس خبر کو سنتے ہی صحابہ کرام کا ایمان بڑھ گیا اور وہ غیرت ایمانی اور قوت یزدانی سے مملو ہو کر پھر تیار ہوگئے ،اور کچھ ظاہری مسلمانوں نے اس وقت ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ قرآن حکیم نے اس منظر کو یوں بیان کیا، ’’اﷲ کی یہ شان نہیں کہ وہ مومنوں کو اس حال میں چھوڑ دے جس پر (آج کل) تم ہو یہاں تک کہ وہ نا پاک کو پاک سے الگ کردے ‘‘(سورہ اٰل عمران:179) اس آیت میں اﷲ نے نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دینے والے تمام صحابہ کو مومن اور طیب فرمایا گیا ہے ۔ اور یہ سات سو صحابہ کرام ہیں اور ان میں چاروں خلفاء راشدین بھی ہیں۔ تو یو ں کہا جا سکتا ہے کہ ابوبکر کی الف سے علی کی ی تک میرے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ہر صحابی طیب و مومن اور طاہر مطاہر ہے ۔ وہ قرآن جو سابقہ نبیوں کے اُمتیوں کے فضائل و خصائل، محامد و محاسن بیان کرے وہ ان حضرات نفوس قدسیہ کی عظمت و شان کو یکسر فراموش کردے یہ کیسے ممکن تھا، بلکہ ان کا تذکرہ تو اﷲ نے توریت، زبور، انجیل میں بھی فرمایا تھا۔ان نفوس قدسیہ کے متعلق اﷲ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ کے نزدیک ایمان لانے والوں، ہجرت کرنے والوں، اور جہاد کرنے والوں کا درجہ تمام مخلوق سے بڑا ہے ، اور وہ اﷲ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ، چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا:’’(اے مسلمانوں!) تم میں سے جن لوگوں نے فتح (مکہ) سے پہلے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا اور جہاد کیا، ان کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا ، ان کا ان سے بہت بڑا درجہ ہے جنہوں نے بعد میں (اﷲ کی راہ میں)خرچ کیا۔ اور اﷲ نے ان سب سے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔‘‘ (سورہ الحدید: 10) صحابہ کرام سب سے زیادہ اﷲ سے ڈرنے والے ، سب سے زیادہ اﷲ کی اطاعت کرنے والے اور سب سے زیادہ اہل بیت کی تعظیم کرنے اور سکھانے والے تھے ، آج امت اہل بیت کی تعظیم جانتی ہے تو حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی بیان کردہ احادیث نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جو انہوں نے امت تک نہ صرف پہنچائی بلکہ عملی تعظیم کر کے بھی دکھائی۔ ہمارے ایک کنارے پر دنیا ہے اور دوسرے کنارے پر آخرت ہے اور درمیان میں تاریک سمندر ہے ، اور اندھیری رات میں جب انسان نے سلامتی سے دوسرے کنارے پہنچنا ہوتو اس کے پاس صحیح سالم کشتی بھی ہو اور ستاروں پر نہ صرف نظر ہو بلکہ ان کی معرفت بھی ہو کہ اندھیروں میں ستاروں سے رہنمائی حاصل کی جاسکے ۔ اہل بیت کی محبت کشتی کی مانند ہے اور صحابہ ستاروں کی مانندسفر کی سلامتی کی ضمانت ان دونوں کے ساتھ خوش عقیدگی لازمی ہے ۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! تم میں میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا، اور جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہو گیا۔‘‘ (المعجم الصغیر: رقم حدیث:391) ایک طویل حدیث میں صحابہ کرام کو ستارے قرار دینے کا ذکر بھی ملتا ہے ، اس حدیث کے الفاظ کا خلاصہ یوں ہے :’’پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اُ ٹھایا اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اکثر آاسمان کی طرف سر اٹھاتے تھے ، پس آپ نے فرمایا: ستارے آسمان کی امان ہیں، اور جب ستارے نہیں ہونگے تو آسمان پھٹ جائے گا،، اور میں اپنے اصحاب کے لیے امان ہوں اور جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب فتنوں میں مبتلا ہو جائیں گے اور میرے اصحاب میری امت کے لئے امان ہیں، جب میرے اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت فتنوں اور بدعات میں مبتلا ہو جائے گی۔ (صحیح مسلم: کتاب الفتن، رقم حدیث: 207) حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں میرے اصحاب کی مثال اس طرح ہے جیسے ستاروں کی مثال ہے ، لوگ ان سے ہدایت حاصل کرتے ہیں، اور جب وہ غائب ہو جاتے ہیں تو لوگ حیران ہوجاتے ہیں‘‘(المطالب العالیہ: رقم حدیث: 4193) ایک موقع پر ارشاد فرمایا جس کو امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح میں نقل فرمایا:حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے اصحاب کو برا مت کہو، کیونکہ تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خیرات کردے تو وہ ان کے صدقہ کئے ہوئے ایک کلو کے برابر نہیں ہوگا،‘‘ (صحیح بخاری: رقم حدیث: 3673) بلکہ قرآن میں اﷲ کریم نے ہدایت کا معیار، ہدایت کی کسوٹی، اور میزان ’’ایمان صحابہ‘‘ کو قرار دیا چنانچہ اﷲ نے ارشاد فرمایا:’’اگر وہ ان کی مثل پر ایمان لے آئیں، جن پر تم ایمان لائے ہوتو بے شک وہ ہدایت پائیں گے ‘‘ (البقرۃ: 137)حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: اس آیت میں ’’مثل‘‘ کا لفظ زائد ہے ۔ کیونکہ اﷲ کی کوئی مثل نہیں، ایمان میں مماثلت مراد ہے ، یعنی اگر یہ اﷲ اور رسول پر تمہاری طرح ایمان لائیں اور تمہاری طرح تصدیق کریں تو یہ ہدایت حاصل کر لیں گے ۔پس آج امت مسلمہ کی درست سمت میں رہنمائی اور حقیقی اسلام تک رسائی اصحاب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہونے میں ہی پوشیدہ ہے ۔ بقول شاعر: آہ! اسلام تیرے چاہنے والے نہ رہے جن کا تو چاند تھا وہ ہالے نہ رہے عظمت صحابہ قرآن حدیث کی روشنی میں ایک طویل تر عنوان ہے جس کا چند سطور میں احاطہ ناممکن ہے کثیر قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ فضائل صحابہ پر دلالت کرتی ہیں ۔عصر حاضر میں عوام الناس میں بے شمار روایات ضعیفہ معروف ہیں جن کی سند پر کلام کیا جاسکتا ہے ۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم احادیث صحیحہ ہی سے استعفادہ کریں۔