ہما شما ہی نہیں، عظیم رہنما اور عالمی طاقتیں بھی حماقت کا ارتکاب کرتی ہیں۔صداقت شعار اور انصاف پسند نہ ہو تو عقل فریب کار ہوتی ہے۔ خود اسی کے لیے گڑھا کھودتی اور اس کی قبر بن جاتی ہے۔ مشرق کے عظیم دانائے راز نے کہا تھا: گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے افغانستان میں برطانیہ نے خاک چاٹی۔ سوویت یونین ہمارے سامنے ٹوٹا اور رسوا ہوا۔ امریکی مہم جوئی کا انجام سامنے ہے۔ افغانستان پر پرسوں پرلے روز اپنی پریس کانفرنس کے بعد جو بائیڈن صحافیوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ اپنے دفتر لوٹتے ہوئے وہ ایک ٹوٹے ہوئے آدمی تھے۔ پروردگار کے قوانین دائمی ہیں۔ ان میں کوئی استثنیٰ نہیں ۔ بس مہلت ہوتی ہے ‘ایک دن تمام ہو جاتی ہے۔ قوموں کو مالک پکڑتا ہے جب اپنی معیشت پہ انہیں ناز ہوجائے۔ نصف صدی پہلے صدر نکسن نے چین سے دشمنی ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اساطیری وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر پاکستان پہنچے، خفیہ طور پر بیجنگ گئے۔ چو این لائی سے بات چیت کی اور لوٹ آئے۔ تب ان کا ہدف سوویت یونین تھا۔ ماسکو کی سرپرستی میں کمیونزم فروغ پذیر تھا۔ چین نے روس کی سرپرستی کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر امریکہ نے روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔امریکی دولت مگر اس سے بڑھ کر جنرل محمد ضیاء الحق کی قوت ایمانی۔معرکہ دس برس بعد افغانستان میں ہوا۔ باقی تاریخ ہے۔ کون جانتا تھا کہ ماؤزے تنگ کے بعد ایک دن معتوب ڈنگ سیاؤ پنگ حکمران ہوں گے اوراقبال ؔ کی پیش گوئی تمام ہوگی: گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے انقلاب سے خوف زدہ سمندر پار جا بسنے والے چینیوں،امریکہ اور یورپ کے سرمایے سے افلاس کی ماری سرزمین میں انقلاب کا آغاز ہوا۔ تیس برس میں ستر کروڑ انسان غربت کی دلدل سے نکل آئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ریاست ہائے متحدہ کو چین سے قرض مانگنا پڑا، کئی ٹرلین ڈالر۔ چین خود ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا اور اب واشنگٹن کے مقابل کھڑا ہے۔ چین ہی نہیں، روس بھی۔ امریکی دانشور کہتے ہیں کہ جنگی اعتبار سے روس زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ چین معاشی غلبے کے لیے سب سے بڑا چیلنج؛ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد عسکری قوت اورذرائع ابلاغ پہ بالادستی مدتوں امریکی غلبے کا ذریعہ رہے۔ بنیاد مگر دولت کے ڈھیر پر تھی۔ فقید المثال مالیاتی ادارے اور ڈالر کی حکمرانی۔ دنیا بھر کے سمندروں میں امریکی بحری بیڑے آج بھی گشت کرتے ہیں۔ ایک شہر کی طرح وسیع، جن پہ افواج، اسلحہ اور جنگی طیارے مامور ہوتے ہیں۔نواح روس سے مشرقِ وسطیٰ،مشرقِ وسطیٰ سے وسطی ایشیا اور وسطی ایشیا سے مشرقِ بعید تک امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ انہی بحری بیڑوں اور فوجی اڈوں کے بل پر واشنگٹن کی دہشت آج تک قائم رہی۔ طلسم اب ٹوٹ رہا ہے۔ بیتے برسوں میں تاریخ ساز واقعات رونما ہوئے۔ اپنی سرحدوں سے باہر نکلنے اور دنیا بھر میں اپنا رسوخ قائم کرنے کا چینی فیصلہ۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے منصوبے۔ سی پیک جس کا بہت اہم مگر چھوٹا سا حصہ ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے لیے اقتصادی اور تکنیکی امداد،ا یران میں چار سو ارب ڈالر کی کھپت۔ امریکی بالادستی اب معرضِ خطر میں ہے۔ جاپان، بھارت اور آسٹریلیا امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جنوبی سمندروں میں اس پر دباؤ ہے کہ امریکی جب چاہیں چین کی بحری تجارت کا راستہ روکنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے تیل کی فراہمی مشکل بنا دیں۔ توانائی، جو صنعت کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے جس کے بغیر کسی بھی ملک کی اقتصادی موت واقع ہو سکتی ہے۔ چینی خواب میں سی پیک کے علاوہ اور بہت سے منصوبے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل امریکی تھانیدار ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کا منصوبہ یہ ہے کہ ایران میں موجودہ حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی پسند کے لوگ اقتدار میں لائے جائیں۔ امارات، مصر، قطر اور سعودی عرب کی طرح ایران بھی اسرائیل کے سائے میں پناہ لے۔ فارس میں چار سو ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے اعلان اور اہتمام کے بعد امریکی خواب کیسے پورا ہوگا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ چند ماہ قبل یورپی یونین نے بیجنگ سے سرمایہ کاری کا سمجھوتہ کیا۔ زیادہ سرمایہ اب چین کے پاس ہے۔ یہ حادثہ کس طرح رونما ہوا؟بندوں کے اپنے منصوبے ہیں اور پروردگار کے اپنے۔تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ۔ کرونا وائرس پھیلا تو بھارت میں جشن منایا گیا۔جذبات سے مغلوب بھارتی دانشوروں نے اعلان کیا کہ چین ڈوب سکتا ہے اور پاکستان تو یقینا۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ چین سب سے پہلے سنبھلا۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے، جنہیں سب سے کم نقصان پہنچا۔ عمران خان کی حکومت نے، جسے نکمی، ناکارہ اور نا اہل سمجھا جاتا ہے،جس کے وزرا، وفاقی کابینہ کے ارکان اور افسر شاہی پہ کم ہی اعتماد کیا جاسکتاہے،محدود وسائل کے باوجود کرونا سے نکلنے کے لیے حکمتِ عملی وضع کی۔ فروری 2020ء میں چغتائی لیبارٹریز لاہور نے کرونا کا پہلا مریض دریافت کیا۔ عالم یہ تھا کہ شوکت خانم اور آغا خان ہسپتال سمیت، ملک میں ڈھنگ کی صرف تین چار لیبارٹریز تھیں۔ وینٹی لیٹر تو کیا، ماسک کاقحط تھا۔ قوم لاپرواہ اور حکام کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے۔ NCOCنام کے وفاقی ادارے نے فروغ پذیر لیبارٹریز کو پابند کیا کہ ہر مریض اور اس کے کوائف کی اسے اطلاع دیں گے۔ٹیکسلا میں جنرل بلال نے ماسک اور سینی ٹائزر کے ڈھیر لگا دئیے۔ یا للعجب فواد چودھری نے وینٹی لیٹر بنا دئیے۔ اعداد و شمار یکجا ہوئے تو حکمتِ عملی ممکن ہو ئی۔ بھارتی ڈیلٹا وائرس کی بدولت خطرات باقی ہیں بلکہ زیادہ۔ اگر احتیاط روا رکھی گئی اور ویکسین لگانے کا عمل قدرے تیزہو گیا تو سال بھر میں قابو پا لیا جائے گا۔ امریکہ، ایران، انڈونیشیا، بھارت، برازیل اور برطانیہ ایسے ممالک یلغار پہ فوراً قابو نہ پاسکے۔پاکستان نے بڑی حد تک اسے تھام لیا۔ روزانہ بھارت میں پانچ چھ ہزار بلکہ بعض اندازوں کے مطابق دس پندرہ ہزار آدمی لقمہ ء اجل بننے لگے۔ یہ معالجینِ کرام کا کمال تھا۔ اتنی بڑی مقدار میں انہوں نے کرم کش (antibiotic )ادویات ٹھونسیں کہ ایک نئے مرض نے جنم لیا۔ کرونا نہیں، اب یہ ڈیلٹا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرونا کا مذاق اڑاتے رہے؛حتیٰ کہ لاکھوں امریکی ڈوب گئے۔ غیر معمولی مستعدی کے ساتھ چین نے قابو پالیا۔ اس کی معیشت اب معمول کے مطابق ہے۔ وائرس کا آغاز ہوا توعصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا: محض ایک مرض کی نمود نہیں، ایسا لگتاہے کہ پروردگار کو کرہ ء خاک پہ ایک عظیم انقلاب مطلوب ہے۔ ایک کے بعد دوسری حماقت۔ ایسا لگتا ہے کہ داسو میں چینی ہنر مندوں پہ حملہ کر کے بھارت نے عظیم ترین حماقتوں میں سے ایک حماقت کا ارتکاب کیا ہے۔ناخوش چینی اب مشتعل ہیں۔ بھارتیوں کی طرح خود پہ وہ پاگل پن سوار ہونے نہیں دیتے بہرحال اب بھارت، اس کے حلیف افغان کارندوں بلکہ شاید واشنگٹن کو بھی اس کی قیمت چکانا پڑے۔ ہما شما ہی نہیں، عظیم رہنما اور عالمی طاقتیں بھی حماقتوں کا ارتکاب کرتی ہیں۔صداقت شعار اور انصاف پسند نہ ہو تو انسانی عقل فریب کار ہوتی ہے۔ خود اسی کے لیے گڑھا کھودتی اور اس کی قبر بن جاتی ہے۔ ہما شما ہی نہیں، عظیم رہنما اور عالمی طاقتیں بھی حماقت کا ارتکاب کرتی ہیں۔صداقت شعار اور انصاف پسند نہ ہو تو عقل فریب کار ہوتی ہے۔ خود اسی کے لیے گڑھا کھودتی اور اس کی قبر بن جاتی ہے۔ مشرق کے عظیم دانائے راز نے کہا تھا: گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے