8 فروری 2024ء کو عام انتخابات ہو رہے ہیں، سیاسی جماعتیںایک بار پھر اپنے اپنے انتخابی منشور پیش کرنے جا رہی ہیں، ان میں خوش نما نعرے اور بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ انتخابی مہم ہو یا عملی سیاست، ہر سیاسی جماعت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشیوں کی بنیاد پرآگے بڑھتی ہے، کبھی کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور پر عمل نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ملک سیاسی و اقتصادی طور پر مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے انتخابی منظر نامے یا انتخابی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں انتخابی منشور کی بنیاد پر انتخابی سیاست کو کبھی برتری نہیںمل سکی، انتخابی منشور محض سیاسی ضرورت بن کر رہ گیا ہے جو سیاسی جماعتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ انتخابات سے قبل اپنا اپنا انتخابی منشور الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں۔ انتخابی مہم اور سیاست میں انتخابی منشور کبھی ایک بڑی سیاسی بحث کا حصہ بھی نہیں بن سکا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی منشورمیں بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں یا عوام کے ساتھ اپنی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن جب بھی ان کو اقتدار ملتا ہے تو وہ ایسی اصلاحات کو نظرانداز کردیتی ہیں یا وہ ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں بنتے جو ریاستی یا حکومتی نظام میں ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اتحادیوں پر کڑی تنقید کے ساتھ عام انتخابات کے لیے 10 نکاتی منشور کا اعلان کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت بنی تو پانچ سالہ دور میں تنخواہوں کو دگنا کرنا ترجیح ہوگی، غریبوں کو تیس لاکھ گھر بناکر دیں گے۔ 2018ء میں تحریک انصاف نے بھی 50لاکھ گھر بنانے کر دینے اور ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ اپنے پارٹی منشور میں شامل کیا تھا ۔بلاول بھٹو وعدہ تو کر رہے ہیں پیپلز پارٹی مرکز میں برسراقتدار رہ چکی ہے اور سندھ میں تسلسل سے بر سر اقتدار آ رہی ہے مگر عام آدمی کو ریلیف نہیں ملا۔ پیپلز پارٹی کے منشور میں یہ بات کہ غریبوں کے لیے 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کریں گے، سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں بجلی مہنگی بھی ہوئی اور بد ترین لوڈشیڈنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کی سب سے بڑی داعی رہی ہے، پیپلز پارٹی نے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل بھی پاس کرا رکھا ہے۔ اگر اپنے سابقہ منشور سے انحراف کرتی ہے تو پھر عام انتخابات میں وسیب سے اس کا حساب برابر ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن نے منشور کی تیاری کیلئے عوام سے تجاویز طلب کی ہیں ، (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف کا کہناہے کہ انتخابی منشور کی تیاری کا مقصد بنیادی مسائل کی نشاندہی اور ان کا قابل عمل حل تجویز کرنا ہے۔(ن) لیگ کو بھی اپنے منشورمیں صوبے کے قیام کا ذکر کرنا ہوگا کہ 2013ء کے الیکشن میں (ن) لیگ کے منشور میں دو صوبوں کا وعدہ کیا گیا تھا، دو تہائی اکثریت ملنے کے باوجود ایک بھی صوبہ نہ بنایا گیا۔ (ن) لیگ سے وسیب کی یہ بھی شکایات ہیں کہ منشور کی تیاری میں وسیب سے کسی پارٹی عہدیدار کو شامل نہیں کیا جاتا، اس کا بھی (ن) لیگ کو ازالہ کرنا ہوگا۔ مریم نواز نے کہا کہ پاکستانی قوم کی اجتماعی دانش کو ترقی کی حقیقی شکل دینے کیلئے اپنی تجاویز پورٹل پر ڈال سکتے ہیں۔ وسیب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اور عہدیداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وسیب کی محرومی ، وسیب کے حقوق اور صوبے سے متعلق اپنی تجاویز پارٹی قیادت تک پہنچائیں اور اپنے موقف کا کھل کر اظہار کریں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ روٹی ، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورت ہے مگر اس طرح کی اصلاحات ضروری ہیں جو کہ روٹی ، کپڑا اور مکان و دیگر ضروریات زندگی میں آسانی سے دستیابی ممکن بنا سکیں، اس کے لیے تاریخ ساز اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعت، سیاسی گروہ بندی کا نام ہے جو کسی بھی خطے میں ریاست کی حکومت میں سیاسی طاقت کے حصول کے لیے تشکیل دی جاتی ہے، سیاسی جماعت کسی بھی ریاست میں انتخابی مہم، تعلیمی اداروں میں فعالیت یا پھر عوامی احتجاجی مظاہروں کی مدد سے اپنی موجودگی اور سیاسی طاقت کا اظہار کرتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اکثر اپنے نظریات، منصوبہ جات اور اپنے نقطہ نظر کو تحریری صورت میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں جو اس جماعت کا منشور کہلاتا ہے جو اس مخصوص سیاسی جماعت کی ذہنیت اور مخصوص اہداف بارے عوام کو آگاہ کرتا ہے، اسی منشور اور اہداف کی بنیاد پر ریاست میں سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد بنتے یا پھر ٹوٹتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اتنی زیادہ طاقتور نہیں ہیں ، ماضی اور حال کو دیکھا جائے تو اقتدار پرست جماعتیں ’’سمجھوتہ ایکسپریس ‘‘کی سوار نظر آتی ہیں ۔اقتدار سے ایک جماعت کو ہٹا کر دوسری جماعت کو بر سر اقتدار لانے کی پریکٹس چل رہی ہے، سیاسی طور پر کٹھ پتلی تماشے دیکھتے آ رہے ہیں ، انہی حالات میں منشور کی حیثیت برائے نام رہ جاتی ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود جمہوریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور جمہوریت کی مضبوطی کی بنیاد سیاسی جماعتیں اور ان کے منشور ہوتے ہیں، منشور سیاسی جماعتوں کے وہ منصوبے، پروگرام اور وسیع تر پالیسی موقف ہیں جن پر وہ عمل کرنے کا وعدہ کرتی ہیں تاکہ انتخابات میں وہ ووٹ حاصل کر کے اقتدار میں آ سکیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں عام طور پر اپنے منشور انتخابات والے سال کے دوران جاری کرتی ہیں، یہ ایک بنیادی نوعیت کی دستاویز ہے جس کی روشنی میں برسراقتدار آنے پر اس جماعت کی کارکردگی کاتجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری سیاست میں رائے دہندگان توقع رکھتے ہیں کہ سیاسی جماعت اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرے کیونکہ وہ ان پروگراموں اور پالیسیوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جنہیں اقتدار میں آنے پر کوئی سیاسی جماعت عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک باضابطہ منصوبہ رکھا جائے اور اسے عملی جامہ پہنانے کا عہد کیا جائے جس کی روشنی میں وہ اس جماعت کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کر سکیں۔