کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت عورت مارچ نے خوب رونق لگائے رکھی۔مارچ کی شرکاء اپنے لباس‘ گیٹ اپ‘ میک اپ‘ وضع قطع‘ طرز گفتار و رفتار سے ایلیٹ کلاس کی لگتی تھیں۔ نعرے لگانے اور رقص کرنے کا انداز بھی’’اشرافی‘‘ تھا۔ مڈل کلاس کی بھی کچھ ہوں گی‘ لوئر مڈل کلاس کی کوئی نظر نہیں آئی اور لوئر کلاس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مطالبات درست البتہ اشارے کنائے ذومعنے تھے۔ قابل اعتراض بھی۔ بعض تو کھلی۔ بے حیائی کے ذیل میں آتے تھے لیکن ان کی تردید یا تاویل آ گئی۔یہ ایلیٹ کلاس35 برس سے بلا شرکت غیرے حکمران ہے۔ سڑکوں پر مارچ کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ قانون سازی کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہے اور قانون نافذ کرنے کا بھی۔ پھر بھی’’مارچوں اوردھرنوں‘‘ کا ری پلے کرنے کا شوق غالب رہا۔ ٭٭٭٭ پاکستان میں عورتوں کے مسائل سنگین ہیں اور حقیقی بھی۔ البتہ آبادی کے تناسب سے دنیا میں کہیں بھی عورتوں کی حالت اتنی بری نہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار عورتیں (غیرت کے نام پر قتل) کا شکار ہوتی ہیں۔ مڈل کلاس کی عورتوں کی حالت اچھی نہیں۔ لوئر مڈل کلاس کی حالت خراب اور لوئر کلاس کی خراب ترین ہے۔ طلاقیں‘ اغوا‘ چہرے پر تیزاب پھینکنے کے واقعات اور زندہ جلائے جانے کی درندگی ہر روز اخبارات سے عیاں ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں تین سال کے دوران تین سو عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔ بھارت میں عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں تعداد اور قوت میں بہت زیادہ ہیں اور منظم بھی اور انہیں میڈیا کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پھر یہ کہ ان کا زور مطالبات اور جدوجہد پر ہوتا ہے‘گلیمر پر نہیں ۔خاص بات ایک یہ بھی ہے کہ ان کے جلسے اور مظاہرے دیکھیں ‘ بھاری اکثریت مڈل کلاس کی‘ باقی لوئر کلاس کی۔اشرافیہ کی نمائندگی نظر نہیں آتی چنانچہ دن بدن وہاں عورتوں کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ ٭٭٭٭ پاکستانی معاشرہ اس قدامت پسندی کا شکار ہے،جسے غلط طور پر مذہب سے منسوب کر دیا جاتا ہے، مثال کے طور پر غیرت کے نام پر قتل میں تو یہ بھی ہوا کہ کوئی بچی موبائل پر بات کرتی دیکھی گئی تو قتل کر دی گئی۔ غیرت کے نام پر باپ بھائی ہی نہیں‘چچا اور بھتیجے بھی کود پڑتے ہیں اور بھانجی بھتیجی کو قتل کر کے اپنی مردانگی کا ڈنکا بجاتے ہیں اور یہ وہی حضرات ہیں جو دوسرے کی بیٹی کو بھگا لے جانا عین’’غیرت‘‘ سمجھتے ہیں۔ بیویوں پر تشدد جائز سمجھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ایک قطعی جھوٹی دلیل دی جاتی ہے کہ عورت پائوں کی جوتی ہے۔ یہ محض کذب و اخترا ہے۔ گھریلو تشدد کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس میں وہ گھریلو ملازمائیں بھی شامل ہیں، جو چھ سات سال سے لے کر بارہ چودہ سال کی عمر تک کی ہیں اور بہت کم تنخواہ پر رات دن مشقت کرتی‘24گھنٹے کی ڈیوٹی دیتی اور ہر روز مالکان کی مارپیٹ سہتی ہیں اور بہت سی تو جان سے مار دی جاتی ہیں ۔شاید ہی کوئی واقعہ ایسا ہوا ہو کہ جس میں کسی مقتولہ کو انصاف ملا ہو۔ غلط طور پر مذہب سے منسوب جاگیردارانہ قدامت پرستی‘ جہالت اور دنیا کی مضبوط ترین اشرافیہ کا استحصال۔ یہ تین عناصر جب تک فنا یا کمزور نہیں ہوتے‘ پاکستانی عورت کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک عورت کو پائوں کی جوتی کہنے والی روایت ہے‘ اپنے سکول کے زمانے سے واعظین کی زبانی سنتا آ رہا ہوں اور حیرت حال ہی میں تب ہوئی جب سعودی عرب سے وابستگی رکھنے والے ایک لیبیائی سکالر ڈاکٹر علی احمد الصلابی کی کتاب میں بھی یہی روایت پورے شدو مد کے ساتھ دیکھی۔ الصلابی صاحب عالمی سطح کے معروف مورخ اور سکالر ہیں اور انہوں نے خلفاء راشدین کے بارے میں ایک سیریز لکھی ہے۔ جس کا اردو ترجمہ پاکستان کے دو ناشروں نے الگ الگ چھاپا ہے۔ موصوف پی ایچ ڈی ہیں لیکن انہوں نے بظاہر ’’مدح‘‘ کرتے ہوئے وہ تمام موضوع اور جھوٹی روایات جمع کر دی ہیں جن سے ان کی (بظاہر) ممدوح ہستیوں کی شخصیت بری طرح داغدار ہوتی ہے۔ پاکستانی ناشرین نے حیرت ہے‘ ان کتابوں کے اندر ستور میٹھے زہر کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ ترجمے چھاپ دیے۔ سعودی عرب‘شام‘ برصغیر کے بہت سے علماء ان روایات کا جعلی ہونا ثابت کر چکے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ یہ ڈاکٹر صاحب تو پھر بھی مدح کے پردے میں وار کر گئے‘ ان سے بہت پہلے ایک اور صاحب مغربی دنیا کے لئے بڑے پسندیدہ تھے۔ موصوف نے اسلام کی مقدس ہستیوں کو بدنام کرنے اور ہر جھوٹا الزام اور بہتان ان پر لگانے میں عمر صرف کر دی۔ غنیمت ہے کہ ان دوسرے علماء نے بروقت جواب دے دیا ورنہ ان کا لکھا ہوا جھوٹ اب تک ’’تاریخی سند‘‘ بن چکا ہوتا۔ ٭٭٭٭٭ روایت والی بات نے طول پکڑ لیا جس کی وجہ سے بچوں کا ذکر گویا رہ ہی گیا۔ گھریلو تشدد کا شکار عورتوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی ہیں اور یہ بچے گھر سے باہر بھی غیر انسانی تشدد کا شکار ہیں۔ دنیا میں بچوں کے قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں بھی پاکستان میں ہوتی ہیں۔ تفصیل بتانے کے لئے جگہ نہیں۔ دوسرے نمبر پر لاطینی امریکہ کے ملک بالخصوص برازیل اور میکسیکو ہیں۔ ہزاروں بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں کچھ تشدد سے مار دیے جاتے ہیں اور بہت سے اس اذیت ناک محرومیوں سے بھری زندگی کی بدولت جوانی کی عمر تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔اغوا‘ قتل کی وارداتیں ہر روز کی خبر ہیں اور نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔