گزشتہ روز پوری دنیا میں عالمی یوم مہربانی کے طور پر منایا گیا، یہ دن اس وقت منایا گیا جب فلسطین میں ظلم کا بازار گرم ہے اور وہاں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، ہم ظلم کی بات کرنے سے پہلے عالمی یوم مہربانی کا حوالہ دیں گے کہ یہ دن منانے کا مقصد کیا ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے، عالمی یومِ مہربانی ایک بین الاقوامی تقریب ہے جو ہر سال 13 نومبر کے دن منائی جاتی ہے۔ اس کو 1998ء میں عالمی تحریک برائے مہربانی نے متعارف کروایا جو مختلف ممالک میں قائم غیر سرکاری اداروں کا اتحاد ہے۔ اس تقریب یا جشن کا اہتمام کئی ممالک میں ہوتا ہے، جس میں کینیڈا، آسٹریلیا، نائجیریا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ سنگاپور میں اس دن کو 2009ء میں پہلی بار منایا گیا۔ اطالیہ اور بھارت میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے۔ دن کی تاسیس ورلڈ کائنڈنیس یو کے کے معاون بابی ڈیوڈ جمیلی نے لوئیس بورفیٹ ڈانس کے ساتھ مل کر ڈالی۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے پر راغب کرنا اور دوسروں کے لئے نیک جذبات رکھنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 13 نومبر 1998 کو جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہوا جب عالمی تحریک برائے مہربانی کی بنیاد رکھی گئی۔ انسانیت پر ظلم فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی جاری ہے، کشمیر میں لاکھوں کشمیری مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں، دوسری طرف ظلم یہ ہے کہ 23 اگست 2019ء کو نئی دلی میں رحم دلی کے بارے میں پہلی عالمی یوتھ کانفرنس کا بھارت کے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے افتتاح کیا تھا، کیا اس وقت ان کو مہربانی یاد نہیں آئی ، کیا ہندوستانی صدر نے اس موقع پر رحم دلی کا کوئی حوالہ دیا؟ اور یہ بھی دیکھئے کہ یورپ جو کہ مہذب کہلاتا ہے وہاں بھی نسلی اور امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، ناروے میں بھی لوگ مسلمانوں سے امتیازی سلوک کرتے ہیں اس کے باوجود عالمی یومِ مہربانی کے حوالے سے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے مضافات میں ’’شی‘‘ کے علاقے میں ایک پروقار تقریب میں ناروے کی کرکٹ فیڈریشن کی سیکرٹری جنرل مس ’’گرے بروآس‘‘ نے سید تجمل شاہ کو خصوصی ایوارڈ پیش کیا۔ اصل میں کوئی بھی یوم منانے سے پہلے عملی صورت ضروری ہوتی ہے، آج ایک طرف یوم مہربانی منایا جا رہا ہے تو آج ہی کی خبر کے مطابق غزہ میں سرائیلی جارحیت سے شہید افراد کی تعداد بارہ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کو اسلحے کی سپلائی روکی جائے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسانی فلاح کے لیے سائنسدانوں نے ریسرچ کی اور اس میں یورپ کے بہت سے ملکوں کا نام آتا ہے مگر انسانوں کی تباہی کے لیے مہلک ہتھیار بھی یورپ نے ہی تیار کئے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس (یوسی ایل اے) میں ’کائنڈنیس انسٹی ٹیوٹ‘ قائم کیا گیا ہے جہاں رحم دلی کی تدریس اور اس رویے پر تحقیق کی جاتی ہے، انسٹی ٹیوٹ کا مقصد یہ بھی ہے کہ رحم دلی اور ہمدردی کے انسانی اثرات اور نفسیاتی فوائد پر تحقیق کی جائے گی۔ مثلاً کسی بوڑھے کی مدد کرنا یا کسی نابینا کو سڑک پار کروانے جیسے چھوٹے اقدام بھی انجام دینے والے پر بہتر اثرات ڈالتے ہیں۔ دوسری جانب ہمدردی اور انسان دوستی سے معاشرہ بہتر ہوتا ہے اور نیکی کی ہوا پوری سوسائٹی میں پروان چڑھتی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ انسانیت کو بچانے کے لیے تحقیق اور ریسرچ ہونی چاہئے اور اس بات پر تحقیق کی جائے کہ دولت مند ملکوں کے حکمرانوں کے دل میں رحم دلی کے جذبات کس طرح پیدا کئے جا سکتے ہیں، انسان دوستی کی صرف بات نہ کی جائے بلکہ انسان دوستی کے عملی نمونے پیش ہونے چاہئیں۔ ایک ایسے وقت کہ جب معاشرہ انتہا اور شدت پسندی کے منفی رجحانات کے علاوہ سماجی اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہو رہا ہو، نیکی کے کاموں، مہربانی اور رحم دلی کے جذبوں کو فروغ دینے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ مہربانی کاجذبہ معاشرے میں بھائی چارے، محبت، اخوت اور امن کا موجب بن کر فلاح کا عنصر لے کر آتا ہے مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل اور منفی رویوں سے یہ جذبے ماند پڑ رہے ہیں۔ ان جذبوں کو خاص طور پر نئی نسل میں فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مہربانی ایک ایسی زبان ہے جو کہ بہرے افراد سن اور نابینا افراد دیکھ سکتے ہیں، مہربانی کا کوئی عمل کتنا چھوٹا ہی ہو ، کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی کی تلخ بات پر مسکرا دینا، کسی سے اچھا برتائو کرنا بھی ایک طرح کی مہربانی ہے۔ مہربانی کا فلسفہ اور وصف ہی ہے، جو معاشرے میں مثبت سوچ اور فکر رکھنے والے افراد کو مشکل وقت میں دوسروں کے کام آنے، حسن سلوک اور غمگساری کے علاوہ دیوار مہربانی اور انسانیت کی خدمت جیسے فلاحی کاموں پر آمادہ کرتا ہے۔ اسلام سمیت تمام مذاہب بھی رحم دلی کا پرچار کرتے ہیں، اللہ نے جتنے احکامات دئیے بندوں کے قدرت کے مطابق ہیں، انسانوں سے نرمی کرنا، یہ اسلامی تعلیمات میں ہیں، لوگوں کے ساتھ آسانی کرو، انہیں متنفر نہ کرو، بچوں پر شفقت، لوگوں سے حسن سلوک رکھنا یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ معاشرے میں اچھا برتائو، ضرورت کے وقت کسی کے کام آنے اور نیکی کے دیگر اعمال سے لے کر تلخی کے باوجود ہر ایک سے مسکرا کر ملنے، درگزر کرنے اور راستے سے پتھر یا کوئی نقصان پہنچانے والی چیز ہٹا دینے تک سب مہربانی کی شکل ہیں۔ دنیا کے سبھی مذاہب کا مطمع نظر ایک بہتر انسان کی تخلیق اور اصلاح معاشرہ کا ایسا تصور ہے جس میں ایک انسان دوسرے انسان سے رحم اور ہم دردی کا معاملہ کرے۔ یوم رحم دلی کا ذکر ہو رہا ہے تو ہمیں سابقہ تاریخ کو سامنے رکھ کر موجودہ حالات کا جائزہ لینا ہوگا اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی، سابقہ اور موجودہ تاریخ ظلم اور زیادتی سے بھری ہوئی ہے، رحم دلی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ظلم اور زیادتی کی سب سے بڑی وجہ نا انصافی ہے، ہم اپنے وسیب کو دیکھتے ہیں کہ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بے انصافی کے باعث وسیب کے لوگوں سے تعلیم ، صحت اور روزگار چھینا گیا، بیروزگاری کے باعث وسیب کے لوگ مزدوری کے لیے دیگر علاقوں میں گئے تو وہاں قتل ہو گئے جیسا کہ بلوچستان سے سرائیکی مزدوروں کی مسلسل لاشیں آ رہی ہیں مگر انصاف نہیں ملا۔ کسی شاعر نے خوب کہا ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں ، انصاف کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے۔