چاچڑاں شریف، خواجہ فرید کی جنم بھومی، پاکستان کے مشرقی اور مغربی دریاوں کا جنکشن ہے۔ یہاں مشرقی دریاوں کے پانیوں کو لیکر ایک طرف' پنجند' پہنچتا ہے تو دوسری طرف سندھ۔ یہاں سے آگے کشمور تک دونوں دریا ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں ۔ لگ بھگ چالیس کلومیٹر کی چوڑائی اور ڈیڑھ سو کلومیٹر لمبا کچے کا علاقہ ہے جس میں آزاد اور خود مختار قبائل اپنے مخصوص روایات کے تحت زندگی گزارتے ہیں ، مچھلی پر گزارہ کرتے ہیں، مال مویشی پالتے ہیں اور محدود پیمانے پر زراعتکاری بھی کرتے ہیں۔ وہ سال ان کے لیے بہت ہی کٹھن ہوتا ہے جب ا ن علاقوں میں گندم کی فصل کی کٹائی کے موقع پر پولیس آپریشن ہوتا ہے۔ نہ صرف انہیں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے بلکہ گندم کی تیارفصل سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں جو انکے لیے سال بھر کی امید بننے کی بجائے قریبی ملوں میں پسائی اور پھر بازاروں میں بکنے کے لیے پہنچا دی جاتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنا کام کرکے یہ جا وہ جا، دریا کے باسیوں نے قبائلی جھگڑوں ، چوری چکاری اور بیماری سے بھی نمٹنا ہوتا ہے ، بھوک بھی ان پر مسلط کردی جاتی ہے۔ جب حکومت کسی کو بنیادی سہولتیں نہیں دیتی، انکے معاملات میں دخل ہی کیوں دیتی ہے؟ انگریز بہاد ر اس علاقے پر عملداری حاصل کرنے سے پہلے سروے کرچکا تھا اور اس مقام پر ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ دریائی تجارت کے بجائے اس کی توجہ زراعت کی طرف چلی گئی۔ دریاوں سے نہریں نکالیں ، جنگلات کاٹ کر زمینیں نکالیں ، کچھ اپنے حواریوں کو انکی خدمات کے صلے میں بانٹیں اور کچھ نیلام کردیں۔ شہر بسائے ، منڈیاں بنائیں اور انہیں ریل نظام سے ملادیا۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں شاہی فوج کا تین چوتھا ئی حصہ بھی یہیں سے بھرتی کررہا تھا۔ یوں پنجاب برطانوی ہند کی مغربی سرحدوں کا محافظ ہی نہیں تھا بلکہ پورے ہندوستان کے غذائی تحفظ کا ضامن بھی تھا۔ قیام پاکستان سے آگے کی داستان میں ڈیم اور بیراج بنے اور تھل سے لیکر کشمور تک دریاوں کا حجم کم ہونے کی وجہ سے اپنی خوشحالی پر نازاں سماج بھوک اور غربت کی دلدل میں ڈوب گیا۔ نہری نظام کی لائی گئی خوشحالی اور چمک دمک بھی اب ماند پڑ گئی ہے۔ نئے آباد ہونے والے علاقوں میں ایک تو صاف پانی کا مسئلہ ہے کہ فطری طور یہ علاقے بیابان ہیں اور زیر ِزمین پانی کڑوا ہے ، دوسرے، زراعتکاری ، شہروں کے پھیلائو اور صنعتوں کے قیام کی وجہ سے یہاں پہنچنے والا نہری پانی آلودہ ہے اوراسکی لائی گئی بیماریوں کا بوجھ اب ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ ستلج اور راوی کے دامن میں سال بھر اگر ریت اڑ تی رہتی ہے یا وہ محض گندے نالے بن کر رہ گئے ہیں تو متاثر صرف جنوبی پنجاب نہیں ہورہا ہے بلکہ اس کا اثر ٹھٹہ سندھ تک گیا ہے کہ تیس ملین ایکڑ فٹ پانی سندھ طاس سے غائب ہے۔ قدرتی جھیلوں کی وجہ سے سال بھر دستیاب تازہ مچلھی ، لائیوسٹاک مصنوعات ( دودھ ، دہی ، گھی اور گوشت ) اور دریاوں کے دامن میں کاشت کی گئی دالیں میسر نہیں ہے۔ دس سے بیس ملین ایکڑ فٹ پانی جو مشرقی دریاوں کے ذریعے سندھ ڈیلٹا تک پہنچتا تھا اس سے اب سرحد پار راجھستان فیضیاب ہورہاہے۔ مشرقی پنجاب مخالفت نہ کرے تو دہلی سرکار ستلج کے پانیوں کو جمنا کی طرف موڑنے پرتیا ر بیٹھی ہے۔ اگر ہم نے نئی شروعات کرنا ہیں اور وہ بھی اس ادراک کے ساتھ کہ غذائی تحفظ ہمار ا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بھوک اور بیماری کی وبائیں ہم پر مسلط ہوئی ہیں۔ برطانوی عہد میں جو ہوا سو ہوا، زیادہ گڑ بڑ ہوئی تو اس وقت جب ہم آزاد تھے۔ ستم تو یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک آمر کے ہاتھوں انجام پایا ، بھارت سے پیسے لیے ، عالمی بینک سے قرضہ لیا اور تین دریا حوالے کردیے۔ ایک وسیع خطے کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے میں ایسی دیدہ دلیری کیوں؟ یہ ملک کی خوشحالی اور ایک وسیع خطے میں آباد لوگوں کے فطری حقوق چھیننے کی سازش تھی اور اس کے کرد ار بالکل واضح اور نمایاں ہیں۔ اب کوئی کسی سے دریا ہی ہتھیالے اور اس میں اپنے ہی ملک کے حکمران ملوث ہوں تو مسائل پیداہونگے۔ ایک وسیع خطے میں زیر زمین پانی کڑوا ہوگیا ہے۔ آبی حیات معدوم ہوگئی ہے۔ چناب کے پانیوں سے لوگوں کے دکھ کا مداوا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ دریا تو برساتی ہے اور اس میں صرف مون سون میں پانی آتا ہے۔ سال کے باقی مہینوں میں کیا ہوگا؟ افسوس تو یہ ہے کہ دفترِ خارجہ کی سوچ ساٹھ کی دہائی پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ کوئی دو برس پہلے جب پلوامہ کے واقعہ پرپاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر برائے آبی امور نے بیان دیا کہ ہم نے انتظامات کر لیے ہیں کہ مشرقی دریاوں کے پانی کا اب ایک قطرہ بھی پاکستان نہیں جانے دیں گے ، ہمارے سیکریٹری خارجہ کا جواب تھا کہ ہماری بلا سے۔ یعنی دنیا بھر میں رائج اس اصول کی ہمارے دفتر خارجہ کو بھی پرواہ نہیں کہ دریا کے پانیوں پر لوگوں کاہی نہیں آبی حیات کا بھی حق ہوتا ہے اور یہ حق کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک سے ، کسی بھی حالات میں ، نہیں چھین سکتا۔ فوڈ سیکیورٹی پر اگر توجہ آہی گئی ہے تو ہمیں بھارت کے ساتھ مشترکہ دریاوں کے پانیوں کے استعمال پر خصوصی سفارتکاری کا آغاز کرنا ہوگا۔ انڈس واٹر کمیشن کی کارستانیاں اب راز نہیں ہیں کہ ہمارے نامزد نمائندے ہی عوام اور حکومت ،دونوں سے،جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسا آج سے نہیں تب سے ہورہا ہے جب سے سندھ طاس معاہدہ ہمارا مقدر بنایا گیا ہے۔ اگر بنیادیں غلط ہوں تو عمارت کو آسمان کی بلندیوں تک لے جائیں اس عمار ت کا گرنا طے ہے بجائے اسے سہارے دے کر اس کی زندگی بڑھانے کے۔ مقصد، ہمیں اپنے قومی مفاد میں ، بھارت کے ساتھ مل کر، اس غلطی کا ازالہ کرنا ہوگا۔ ' دور جہالت ' میں کیے گئے معاہدے کو پیچھے چھوڑ کر سندھ طاس کے پانیوں کی تقسیم فوڈ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے کرنا ہوگی۔