معزز قارئین!۔مجھے 19 مئی 2016ء کا دِن یاد آ رہا ہے جب، میاں نواز شریف وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سپیکر سردار ایاز صادق سپیکر قومی اسمبلی تھے۔ جب حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ن) اُس کی اتحادی جماعتوں اور جناب آصف زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر چند ہی منٹ میں اپنی تنخواہیں تین گُنا اور "Allowances" (مراعات ) دس گُنا کر لئے تھے ۔ 13 مارچ 2019ء کو نہ صِرف پاکستان تحریکِ انصاف کے وزیراعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار ، پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی اپنی اپنی تنخواہوں اور مراعات بڑھانے کا "Bill"(مسودۂ قانون) متفقہ طور پر منظور کرلِیا۔ بقول شاعر … ’’مَیں تے ماہی ، انج مِل گئے، جیویں ،ٹِچ بٹناں دِی ،جوڑی‘‘ "Bill" کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان خان بزدار کو ہُوا، جنابِ عمران خان نے جب اُنہیں وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کِیا تو، عوام کی معلومات میں اضافہ کرتے ہُوئے فرمایا تھا کہ ’’ جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازیخان کے عثمان بزدار تو اتنے غریب ہیں کہ اُن کے گھر میں بجلی کا کنکشن بھی نہیں ہے ‘‘۔ درست فرمایا ہوگا ؟۔ 20 اگست 2018ء کو بزدار ؔصاحب حلف بردار ہو کر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے ۔ اِس پر مجھے اُستاد شاعر تسلیم لکھنویؔ یاد آئے، جنہوں نے نہ جانے کِس ناصح سےؔ مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … ناصح ؔ ، خیال ِمصحف ِ عارض ، کو چھوڑ دوں؟ اِس پر حلف تو، مجھ سے اُٹھایا نہ جائے گا! خبروں کے مطابق ’’وزیراعلیٰ پنجاب کی تنخواہ 59 ہزار سے ساڑھے 3 لاکھ (6 گُنا) ، سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی 49 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ (3 گُنا) ڈپٹی سپیکر 55 ہزار سے 1 لاکھ 65 ہزار (3 گُنا) ، وزراء 45 ہزار سے (قریباً 3 گُنا) کردِی گئی۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہ 83 ہزار سے 1 لاکھ 85 ہزار (2 گُنا سے زائد ) ، یومیہ الائونس 1 سے 2 ہزار (2گُنا)، سفری وائوچر 1 لاکھ 20 ہزار سے 3 لاکھ ( اڑھائی گُنا) ، ہائوس رینٹ 29 ہزار سے 50 ہزار ( دو گنا سے زائد) کردِیا گیا۔ دفتری الائونس 10 ہزار سے 15 ہزار ( ڈیڑھ گُنا) ، یوٹیلٹی بل 6 ہزار سے 12 ہزار (2گُنا) ، مہمان داری الائونس 15 ہزار سے 20 ہزار ( 1.3 گُنا) ، وزیراعلیٰ پنجاب کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات لاہور میں گھر دینے کا فیصلہ کرلِیا گیا ہے ‘‘۔ سیانے تو پہلے ہی کہہ گئے تھے کہ ’’ نئیں رِیساں شہر لہور دِیاں ‘‘۔ اللہ تعالیٰ جناب ِ بزدار کو ’’عمر خضرؑ‘‘ عطا فرمائے ؟لیکن،نہ جانے کِس اُستاد شاعر نے کہا تھا کہ … لائی حیات ، آئے، قضا لے چلی ، چلے! اپنی خُوشی سے آئے ، نہ اپنی خُوشی چلے ! چشم فلک نے کئی بار دیکھا ہے کہ ’’ جب بھی قومی یا صوبائی اسمبلی میں اِس طرح کی واردات ہو تو ،کوئی بھی فریق اُسے ’’مُک مُکا ‘‘ کا نام نہیں دیتا۔ اِس پر ’’شاعرِ سیاست ‘‘نے کہا کہ… ہے زمانے میں ، بہت مشہور ، نامِ مُک مُکا! ارفع واعلیٰ ، مگر ، اونچا ہے ، بامِ مُک مُکا! …O… کرتے ہیں ،کپڑے پہن کر ، احترامِ مُک مُکا! سارے ننگے ہیں ، اکٹھّے ، در حمامِ مُک مُکا! بہرحال وزیراعظم عمران خان کو داد دینا پڑے گی کہ اُنہوں نے اِس "Bill" کی منظوری کا فوری طور پر نوٹس لیا اور اُنہوں نے گورنر پنجاب چودھری محمد سرورکو "Bill" پر دستخط کرنے سے روک دِیا اور اپنے "Tweet" میں کہا کہ ’’ مُلک خُوشحال ہو تو ، شاید یہ بات ( وزیراعلیٰ پنجاب ، سپیکر اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے کی بات ) سمجھ میں آتی ہے مگر جب عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے بھی وسائل دستیاب نہیں تو، یہ فیصلہ بلا جواز ہے ‘‘۔ اِس پر 15 مارچ کو برادرِ عزیز سیّد ارشاد عارف نے ’’ٹویٹؔ نہیں ،باز پُرس اور گوشمالی‘‘کے عنوان سے اپنے کالم ’’ طلوع‘‘ میں لکھا کہ ’’ وزیراعلیٰ پنجاب کی کابینہ اور تحریک انصاف کے ارکان پنجاب اسمبلی نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کا "Bill" کیسے منظور کرلِیا؟۔ اُنہوں نے گورنر پنجاب کو "Bill" روکنے کی ہدایت کے بجائے وزیراعلیٰ کی بازپُرس کیوں نہیں کی؟‘‘۔ سیّد عارف نے لکھا ہے کہ ’’ مناسب یہی ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان اپنے "Wasim Akram Plus"کو وزیروں، مشیروں سمیت بلائیں ، بہتر ہے کہ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کو طلب کریں اور سب کی اپنے مخصوص انداز میں ’’گوشمالی‘‘ کریںکہ ’’ آپ نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، مجھے لا علم رکھا ، مَیں تو اپنی اُفتادِ طبع اور "Commitment" کے بر خلاف مانگ تانگ کر قومی مُعیشت بہتر کرنے میں لگا ہُوں ، مخالفین سے بھکاری ؔکے طعنے سنتا ہوں اور ملٹری سیکرٹری سے بھی کم تنخواہ وصول کر رہا ہُوں ، آپ نے تو، میری ناک کٹوا دِی۔ اِس غلطی کی کم از کم سزا یہ کہ آپ اپنا تھوکا چاٹیں۔ پنجاب اسمبلی اتفاق سے نہ سہی کثرت رائے سے بل منسوخ کرے!‘‘۔ معزز قارئین!۔ کیوں نہ مَیں وزیراعظم عمران خان کے لئے برادرم ارشاد عارف کے کالم کے دو مشکل الفاظ ۔ ’’باز پُرس‘‘ اور ’’ گو شمالی‘‘ کے معنی لکھ دُوں؟ ۔ ’’ باز پُرس‘‘ کے معنی ہیں ( جواب دہی ، محاسبہ ، مواخذہ ، پوچھ گچھ ، تحقیقات) اور ’’گوشمالی‘‘ کے معنی ہیں ( کان اینٹھنا ، تنبیہ یا تادیب کرنا) ۔ سوال یہ ہے کہ’’ کیا بزدار ؔصاحب واقعی اینے جوگے ؔ ہے نیں؟ ‘‘ بہرحال اُن کی خدمت میں اُستاد شاعر حیدر علی آتشؔ کا ایک شعر پیش کرتا ہُوں کہ … گو شمالی دو نہ ،گلگشت میں ،گُل کو پیارے! طِفل غُنچہ ہے غریب، اِس کو ڈراتے نہ چلو! اب رہا ’’قانون ساز ‘‘ (Lawmakers) کے اختیارات کا مسئلہ ۔ اِس پر مجھے ایک قدیم بادشاہ کی کہانی یاد آگئی ۔ ’’کسی شاعر نے دربار میں بادشاہ کا قصیدہ پیش کِیا ۔ بادشاہ بہت خُوش ہُوا ۔ اُس نے اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرا ، پھراپنے ہاتھ کی طرف دیکھا اور شاعر سے کہا کہ ’’ اے شاعر ! ۔ جب بھی مجھے کوئی شخص خُوش کرتا تو مَیں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہُوں اور جتنے بال جھڑ کر میرے ہاتھ میں آ جاتے ہیں مَیں اُتنے لاکھ دِینار خُوش کرنے والے کو دے دیتا ہُوں ۔ تُم بہت بدقسمت ہو ، تُم نے مجھے خُوش کِیا ، مَیں نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا تو ایک بھی بال جھڑ کر میرے ہاتھ میں نہیں آیا‘‘۔ اِس پر شاعر نے بادشا ہ سے کہا کہ ’’ بادشاہ سلامت!۔ مَیں جان کی اَمان پائوں تو کچھ عرض کروں؟‘‘ ۔ بادشاہ نے جان کی امان دے دِی تو شاعر نے کہا کہ ’’ بادشاہ سلامت ! ۔ یہ آپ کا بنایا ہُوا قانون ہے ، اگر مَیں قانون بناتا تو ، ہاتھ میرا ہو تا اور داڑھی آپ کی ، پھر آپ دیکھتے کہ مَیں کتنے لاکھ دینار آپ سے لے کر جاتا ؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ بالائی طبقے کو اُس وقت سے ڈرنا چاہیے کہ جب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد پاکستانی ، بالائی طبقے کے لئے قانون بنانے کے اختیارات حاصل کرلیں گے ؟۔ غریب ، غُربا ء کوفی الحال جو کچھ مل رہا ہے اُسی پر گزارہ کر رہے ہیں لیکن پھر بھی اُن کے لئے ’’رجائیت پسند ‘‘(Optimist) ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ کی نظم کے چار اشعار پیش خدمت ہیں … کٹے گا اِبتلائوں کا سفر ،آہستہ ، آہستہ! گِریں گے جبر کے ،دیوار و در ، آہستہ آہستہ! …O… ضرورت کا نظریۂ اور اتحادی سیاؔست ہے! اکٹھا ہو گئے ہیں ، خیر و شر ، آہستہ ، آہستہ! …O… ہمارے جِیتے جی، اِنصاف کا سُورج ، چمک اُٹھّا! اندھیروں سے ہی پُھوٹی ہے ، سحر ، آہستہ ، آہستہ! …O… ابھی تو اہلِ ثروت کے ،مسائل ہو رہے ہیں حلّ! غریبوں کا بھلا ہوگا ، مگر آہستہ ، آہستہ!