کیا زمانہ تھا جب عشاق محبوب کی ایک جھلک دیکھنے ، اس سے سے ملاقات کرنے اور اس سے ہم کلام ہونے کے لیے سارا سارا دن کوچہ یاراں کے چکر لگاتے رہتے تھے ۔ یہ اکثر و بیشتر جان جوکھوں کا کام ہوتا تھا ۔استاد صوفی تبسّمؔ یاد آتے ہیں : وہ مجھ سے ہوئے ہمکلام اللہ اللہ/ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ ۔ یعنی ہفتوں مہینوں وصال یار اور ہم کلام ہونے کی خواہش عشّاق حضرات پہ سوار رہتی ۔ اور کئی ایک عمر بھر اسی خواہش کو حسرت میں بدلتا دیکھتے ملک عدم سدھار جاتے ۔ دیدار محبوب اور اُس سے گفتگو کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے اور اس مقصد کے لیے کیسے صبر و جرات آزما مراحل سے گزرنا پڑتا تھا اس کا اندازہ ہمیں اس زمانے کے عشاق کے حالات زندگی پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ ہمیں اس زمانے کے افسانے اور شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے ۔انہیں اس مقصد کے حصول کے لیے کوچہ جاناں کے کئی متعلقہ اور غیر متعلقہ لوگوں سے واقفیت بنانی پڑتی تھی ۔ گھنٹوں اس محلّے بے مقصد گھومتے وہاں کی خاک چھاننی پڑتی تھی ۔ مصحفی ؔ کا یہ معروف شعر اسی زمانے کے عشّاق کی یاد تازہ کرتا ہے : تیرے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا کبھی اس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا اُس زمانے میں خط لکھنے کی خوبصورت اور یادگار روایت بھی عام تھی ۔ عشاق کے لیے ایک اہم ترین سرگرمی محبوب کو خط لکھنا اور پھر اس کے جواب کا بے چینی سے انتظار کرنا ہوتا تھا ۔اس کے لیے قاصد کا بڑا اہم کردار تھا ۔ اپنی بات معشوق تک پہنچانا بڑا چیلنج ہوتا تھا ۔ رقعے لکھے جاتے اور پھر تراکیب سوچی جاتیں کہ یہ رقعہ کیسے بحفاظت اس بندے تک پہنچ جائے جس کے لیے وہ لکھا گیا ہوتا۔ نامہ بر وں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ۔ بہت تگ و دو کے بعد کوئی نامہ بر میسر آتا تو پھر ایک اور الجھن درپیش رہتی اور وہ یہ کہ بہت سے کیسز میں نامہ بر رقیب روسیاہ کا روپ دھار لیتے ۔ اور کسی اور کے خط اور پیغام پہنچاتے پہنچاتے خود اپنی لائن سیدھی کر لیتے ۔چنانچہ دیکھنے میں آتا کہ نامہ بر ہی عاشق کے مدمقابل آن کھڑا ہوتا اور ’ رازدان ہی آخر رقیب ‘ٹھہرا ہے ۔ پھر اگر کوئی ’ نسلی ‘ پیام بر مل بھی جاتا تو ایک مسئلہ یہ رہتا کہ کوئی غیر آپ کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کیسے کر سکتا ہے اور آپ کی آرزوکو اصلی رنگ میں کیسے پہنچا سکتا ہے ۔ استاد آتش ؔ نے اسی الجھن کی طرف کیا خوب اشارہ کیا ہے ، کہتے ہیں : پیام بر نہ میسّر ہوا تو خوب ہوا / زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے ۔ لیکن یہ ساری خوبصورت رومانوی روایات ’سوشل میڈیا ‘ کی آمد کے بعد یکسر دم توڑ گئی ہیں ۔ اب نہ محبوبہ کو خط لکھنے کی حاجت ہے نہ کسی با اعتماد قاصد کو تلاش کرنے کی ۔ نہ گفتگو اور ہمکلامی کی حسرت میں بدلتی کوئی خواہش موجود ہے اور نہ ہی صبح و شام کوچہ جاناں کے پھیرے لگا نے کی کوئی ضرورت ہے ۔ اب یہ سب کام آپ کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی رازداری سے انجام دیئے جا رہے ہیں ۔ اس ساری تمہید کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ ہمارے کلاسیک شعراء جن کا بیشتر کلام متذکرہ بالا روایات کی ترجمانی کرتا ہے وہ اگر آج کے دور میں زندہ ہوتے تو کیا وہ ان روایات کی عدم موجودگی کی صورت میں ایسی شاعری کر پاتے ۔ ایسے میں میری نظر خاص طور پہ استاد غالبؔ کی شاعری پہ جاتی ہے ۔ مرزا نوشہؔ کی شاعری کا ایک قابل ذکر حصہ محبوب کو خط لکھنے ، نامہ بر کو بھیجنے ، خط اور نامہ بر کی واپسی کا انتطار کرنے ،اور محبوب سے بات کرنے کی خواہش جیسے موضوعات پر مبنی ہے ۔ اس کی شاعری بتاتی ہے کہ اس کی زندگی کا محور و مرکز محبوب کی ذات ہے ۔ وہ ’ ساکنانِ کوچہ دلبراں ‘ سے ہی ’ غالبؔ آشفتہ سر ‘ کا پتہ پوچھتا رہتا ہے ۔ غالب ؔ محبوب سے مسلسل رابطہ رکھنے اس خط لکھتے رہنے کا شوقین نظر آتا ہے وہ جرمن ادیب فرانز کافکا کی طرح روزانہ خط لکھنے کا عادی ہے۔ وہ ایک خط کا جواب آنے سے پہلا دوسرا خط لکھنا چاہتا ہے یہ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ جواب میں کیا لکھے گا ۔اس کے اشتیاق کا عالم یہ وہ نامہ بر کے ساتھ خود ہو لیتا ہے گویا اپنا خط خود ہی پہنچائے گا ۔کبھی وہ اس جنونِ شوق کی داد طلب کرتا ہے کہ وہ محبوب کے در پہ وہ نامہ بر سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہے ۔ لیکن اب سوشل میڈیا کے اس دور میں جب کہ نہ خط لکھنے کی حاجت ہے نہ نامہ بر کا قضیہ ہے اور نہ محبوب سے بات کرنا کوئی جوئے شیر لانا ہے ۔تو سوال اٹھتا ہے کہ استاد غالبؔ پھر اس دور میں کیا بیچتے ۔ایسے میں کیا ان کی بیشتر شاعری IRRELEVANT نہ ہو جاتی ۔ کم از کم ان کا یہ شاہکار دیوان تو اس شکل میں موجود نہ ہوتا جبکہ ہم دیکھتے ہیںکہ ان کی تمام تر پذیرائی اسی اردو دیوان کی مرہونِ منّت ہے ۔ ایسے میںیقینا ہم غالبؔکے ان بے مثا ل شعروں سے بھی محروم رہتے جن میں اس نے قاصد اور نامہ بر کا ذکر اس کمال انداز سے کیا ہے کہ انہیں اردو ادب کا ایک لازوال کردار بنا دیا ہے ۔ غالبؔ کے نامہ براور رازداںکثر مقامات پہ اس کے رقیب کا روپ دھار لیتے ہیں چنانچہ ان کے لاجواب تذکرے سے ایک طرف جہاںوہ اپنے خوبصورت اشعار میں اضافہ کرتا ہے وہیں وہ ان ناہنجار نامہ بروں اور رازدانوں کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی طرف اشارہ کرکے اپنے قارئین کی بے پناہ اور جائز ہمدردیاں بھی سمیٹتا ہے مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ : تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم/ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔۔ یا پھر۔۔ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا / بن گیا رقیب تھا جو رازداں اپنا ۔۔۔۔ تو ایک طرف جہاں ہم ان لاجواب اشعار سے محظوظ ہوتے ہیں وہیں ہم ان ناخلف نامہ بروں کی اس زیادتی پر غالبؔ کے لیے ایک اضافی ’ سافٹ کارنر ‘ بھی محسوس کرتے ہیں ۔ لیکن آپ تصور کریں کہ حضرت غالب ـؔ اگر سوشل میڈیا کے اس دور میں رہ رہے ہوتے تو ہمیں ان کی محولہ بالہ بے مثال شاعری پڑھنا کب نصیب ہوتی۔