قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2021-22ء کے لئے 8487ارب روپے حجم کے وفاقی بجٹ کے کثرت رائے سے منظوری دیدی ہے ‘ وفاقی وزیر خزا نہ کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک کے حق میں 172 اور مخالفت میں138 ووٹ آئے۔بجٹ میں محصولات کا ہدف 5829ارب روپے ہے جبکہ 3400 ارب سے زائد کا خسارہ ٹیکس اصلاحات، اندرونی و بیرونی معاونت اور کفایت شعاری سے پورا کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی ملاحظہ ہو کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے پٹرول 2روپے فی لیٹر مہنگا اور ایل پی جی کی قیمت میں 18.84 روپے فی کلو بڑھا دی ہے۔ خسارے کا بجٹ پیش کیے جانے اور پاس ہونے کی روایت دہائیوں سے قائم ہے۔ مالیاتی خسارہ، آمدن اور خرچ میں فرق، کا مطلب شرح سود اور افراطِ زر میں اضافہ ہے۔ بلند شرح سود سرمایہ کاری میں کمی اور افرا طِ زر میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ یعنی ایک طرف تو کا م اور کاروبار میں کمی آتی ہے تو دوسری طرف مہنگائی بڑھتی ہے۔ تین فیصد سے زیادہ مالیاتی خسارے کا مطلب ناعاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر لازمی اخراجات بڑھ جائیں تو اسکا بھی ایک راستہ ہے کہ غیر ضروری اخراجات کم کر دیں، امیر طبقے کی آمدنیوں پر ٹیکس لگادیں، سامانِ تعیش کی درآمدات پر ٹیکس لگادیں۔ اگر ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو دوسری کواس چیلنج کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ لیکن یہ کیا کہ ایک ہی راستہ پکڑا ہوا ہے کہ اشیائے ضروریہ پر ٹیکس لگائیں اور پھر لگاتے ہی چلے جائیں۔ لوگ چیختے چلاتے رہیں ، پرواہ نہ کریں ۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کردیں تاکہ ملکی برآمدات سستی ہوجائیں اور زر مبادلہ کی صورتحال بہتر ہوجائے۔ یہ ظلم ہے کیونکہ اس طرح اشیائے صرف (گوشت ، چینی ، گندم ، سبزیاں اور پھل) نہ صرف مہنگی ہوتی ہیں بلکہ عام لوگوں کی پہنچ سے بھی دور ہوجاتی ہیں۔ حالیہ بجٹ حسبِ معمول خسارے کا ہی معاملہ ہے۔ خرچ کا تخمینہ آمدن سے زیادہ ہے۔ وفاقی محصولاتی ادارے کی کارکردگی اور کفایت شعاری ہو یا نہ ہو، کیا کہا جاسکتا ہے۔ تان بالآخر روایتی حربوں پر ہی جاکر ٹوٹے گی کہ قرضہ لے لو باقی کام قرضوں سے چلا یا جا نا ہے یا پھر امید ہے تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے جنہوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجنا ہوتی ہے۔ حکومت نے کچھ سہولتیں دی ہیں تو انہوں نے ہنڈی کے بجائے قانونی ذرائع یعنی بنکوں سے رقوم بھیجنا شروع کی ہیں جس سے زرمبادلہ کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ ملک میں واقعتاً جمہوری نظام حکومت ہو اور حکمران پارلیمان کو جوابدہ ہوں ، تو خسارے کا بجٹ بنانا اور وہ بھی مستقل طور پر خطرے سے خالی نہیں۔ احتجاج اور مظاہروں کی صورت میں رد عمل فوری بھی ہوسکتا ہے اور معاملہ قبل از وقت انتخابات تک بھی جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں لیکن اوسطاً چھ فیصد مالیاتی خسارے کا رواج پڑچکا ہے۔ یعنی اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ کیوں؟ سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹیوں کہ اپنے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ فیصلہ سازی کے عمل میں قواعد و ضوابط کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ داخلی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے پارٹیوں میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ پارٹیوں کے پاس تحقیق کا نظام موجود نہیں ہوتا کہ قومی معاملات پر کوئی ٹھوس موقف اپنایا جاسکے۔ پارلیمانی پارٹیاں مخصوص طبقے کے معاشی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ عوام پر پالیسیوں کے کیا اثرات ہوتے ہیں، انکی بلاسے۔ تمام پارلیمانی سیاسی پارٹیاں اصل میں ایک ہی پارٹی ہیں۔ مخصوص مفادات کی نگرانی کرتی ہیں اور مجموعی طور پر دولت کی غیر مساوی تقسیم اور اس پر استوار سماج کو جوں کا توں رکھنے پر متفق ہیں۔ پاکستانیت ، جس کی اساس مساوات اور عدل بنتاہے، اس کا گلا ان سب نے بالکل ' آئینی ' طریقے سے گھونٹ کر رکھا ہوا ہے۔ جہاں روز مرہ زندگی میں سرمایہ دار ی اور جاگیردارمذہبی جماعتوں کے کندھوں پر انحصار کرتی ہے ، وہیںآئین پاکستان اسے پارلیمان میں براجمان کرنے کا راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔ بچوں، خواتین اور کمزور طبقات کو سماجی تحفظ حاصل نہیں ہوسکا تو اس کے پیچھے موجود اشرافیہ کا گلی محلے سے لیکر پارلیمان تک گٹھ جوڑ ہے۔ اگر مذہبی پارٹیوں کو اقتدار میں حصہ نہ ملتا تو جاگیردار جمہوریت کی پل صراط پر کہاںچل سکتے تھے۔ اٹھارویں ترمیم میں خود مختار صوبوں کی صورت میں ایک اور ڈھال بھی سامنے آگئی۔ ثقافتی اور لسانی طور پر متنوع ملک میں چار قومیتوں کا وفاق تشکیل پاگیا۔ اس ملک میں جہاں ساٹھ سے اوپر زبانیں بولی جاتی ہیں وہاں لوگ اپنے اپنے صوبوں میں لسانی اقلیتیں بن گئے۔کوئی نیا صوبہ بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا ہے کہ آئین کی رو سے متعلقہ صوبے کی اسمبلی کا اس حوالے سے متفقہ منظوری دینا شرط ہے۔ پنجاب اسمبلی نے خود کو تین صوبوں (پنجاب، جنوبی پنچاب اور بہاولپور) میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی لیکن دیگر تین کی قبولیت ہو تو ہی آئین میں تبدیلی ہوسکے۔ چار قومیتی وفاق کے تصور کو نہ صرف شمال مغربی سرحدی صوبے کو نسلی نام دیے جانے سے عیاں ہے بلکہ فاٹا کے اس میں انضمام سے بھی۔ گلگت بلتستان کے بعد اگر نئے صوبوں کی حامی بھی بھری جاتی ہے تو اس شرط پر کہ وہ انتظامی یونٹ ہونگے۔ یعنی ان کا درجہ قومی صوبوں کے برابر نہیں ہوگا۔ پاکستان کو ' پاکستانیت ' کے اصول کی بجائے ' تقسیم کرو اور حکومت کرو ' کے فارمولے پر چلا یا جا رہا ہے۔ طبقاتی تقسیم ملک بننے سے پہلے جا گیردارانہ نظام کی وجہ سے موجود تھی اسکے بعد فرقہ واریت اور نسل پرستی کو بھی آئینی طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اب فیصلہ ساز حب الوطنی میں ایٹم بم بنالیں اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی تدبیریں بھی کرلیں لیکن اس فکری اساس کو شجر ممنوعہ سمجھ لیں جو لوگوں کے درمیان تفرقہ ڈالے اور دائمی فساد کی راہ ہمورار کرے تو اسکا سیدھا سادا مطلب یہی ہے کہ ان میں اس بنیادی عنصرکی کمی ہے جو جس کی بنیاد پر ملک نہ صرف اپنی حفاظت کرتے ہیں بلکہ اقوام عالم میں اپنا سربلند بھی رکھتے ہیں۔