آٹھ ماہ بعداس اندھیری قبر میں رہنے کے بعد ان کو جموں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔جب انکے والد اور بچے ملنے آئے تو وہ ان کو پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ ان کا بدن پھول چکا تھا اور آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ اسلئے ان کی فیملی نے جموں میں ہی قیام کیا تاکہ ان کو ادویات اور خوراک کی فراہمی کرکے ان کی بحالی صحت کی کوشش کریں۔ غالباً چار سال اس جیل میں قید رہنے کے بعد ان کو اسوقت رہائی ملی جب حریت کانفرنس کی تشکیل کے خد و خال ترتیب دئیے جا رہے تھے۔ الطاف احمد شاہ اور حسام الدین ایڈوکیٹ دو ایسے اشخاص ہیں، جو سید علی گیلانی کے پیچھے ایک طرح سے اسٹریٹیجسٹ کے طو پرکام کرتے تھے۔ دونوں شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے، مگر پلاننگ اوراسٹریٹیجی ترتیب دینا ان کا خاصہ تھا۔ الطاف شاہ خاص طور پر خاصے لو پروفائل رکھتے تھے۔ پورا اسیٹج وغیرہ ترتیب دیکر وہ خود پیچھے یا سامعین میں ہی بیٹھ جاتے تھے۔ 2003 کے بعد جب کچھ سیاسی اسپیس کشمیری لیڈروںکو حاصل ہو گئی تھی، ان کے مشورہ پر علی گیلانی نے اس کا بھر پور استعمال کرکے عوامی رابط مہم شروع شروع کی۔ وہ اس گھر گھر مہم کے آرگنائزر تھے۔ جس کے نتیجے میں پونچھ راجوری اور جموں شہر سے لیکر گریز اور کرنا اور اوڑی کے دور دراز علاقوں تک علی گیلانی نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کی اور تقاریر کیں۔ جب بارہمولہ میں ان کے میزبان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تو علی گیلانی رات کو کسی مسجد میں رکتے تھے۔ اس سے عوامی رابط کی اور راہیں نکلتی تھیں۔ کیونکہ ان کے ساتھ مسجد میں پورا محلہ یا کم و بیش قصبہ کے لوگوں کا اژدہام بیٹھتا تھا۔ 2008میں جب کشمیر کی سیاسی تحریک کو جہت ملی، تو یہ عوامی رابط مہم اس کی ایک بڑی وجہ تھی۔ پھر 2010اور 2014کی اسٹریٹ ایجی ٹیشن جس کو کشمیر کا انتفادہ کہا جاتا ہے وہ اسی مہم کی پیداوار تھی۔ اس مہم کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی، جس کی وجہ سے 15ستمبر 2004کو حسام الدین کو سرینگر میں ان کے گھر پر نامعلوم بندوق بردارو ں نے ہلاک کر دیا۔ اسکے دو ماہ بعد 7نومبر 2004کو الطاف احمد جب افطار کرنے کے بعدنماز مغرب ادا کرنے مسجد کی طرف جا رہے تھے، ان پر فائر کرکے ان کو شدید زخمی کردیا گیا۔ان کے ایک پڑوسی ڈاکٹر نے ان کا بروقت علاج کرکے خون رکوانے کا کام کیا اور پھر سرینگر اور دہلی میں ڈاکٹروں کی ان تھک محنت اور لاتعداد آپریشن کروانے کے ایک سال بعد وہ شفا یاب ہوگئے۔ ان دونوں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ یہی تھی کہ لوگ علی گیلانی کے قریب آنے اور کھل کر سرگرمیاں کرنے سے باز رہیں۔علی گیلانی نے 2007 میں اپنی تنظیم ''تحریکِ حریت کشمیر'' بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف شاہ نے اہم کردار نبھایا اور بعد میں اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔خامیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے علی گیلانی کے اردگرد ایک حصار بنایا ہواہے، جو کسی اور کو ان کے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ اسکی پہلی شکایت غلام قادر وانی نے کی تھی، جن کو سوپور میں گیلانی صاحب کے جان نشین کے بطوردیکھا جاتا تھا اور وہ بھی ان سے ایک طرح اپنی اولاد کی طرح کاپیار کرتے تھے۔ وہ تحریر اور تقریر دونوں میں واقعی علی گیلانی کے جانشین لگتے تھے۔ الطاف شاہ کے منصہ شہود پر آنے کے بعد وہ ان سے دور ہوتے گئے اور بعد میں جماعت اسلامی سے ہی کنارہ کش ہوکر جے کے ایل ایف میں چلے گئے تھے، ان کو بھی نامعلوم بندو ق برداروں نے 4نومبر 1998 کو بانڈی پورہ سے متصل ارن گائوں میںا پنے گھر پر ہلاک کردیا تھا۔ وانی کی طرح دیگر ایسے افراد بھی ، جن کوعلی گیلانی کی سرپرستی حاصل تھی اور اگر یہ جاری رہتی تو ایک اثاثہ ثابت ہوسکتے تھے ، اس دور میں ان سے دور ہوتے گئے۔ سوپور ، جہاں علی گیلانی نے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور مشکل وقت میں اس قصبہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، میں عام شکایت تھی کہ الطاف شاہ نے ہی علی گیلانی کو سرینگر منتقل ہونے پر مجبور کردیا، جس کی وجہ سے یہ قصبہ سیاسی طور پر یتیم ہوکر رہ گیا۔ یکم اکتوبر کو این آئی اے کی درخواست کے جواب میں رام منوہر لوہیا اسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے: "فی الحال مریض ایک سے زیادہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ شدید بیمار ہے ااسکو زندہ رکھنے کیلئے وینٹی لیٹر اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔مریض کو آنکولوجی سپورٹ اور پی ای ٹی اسکین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے مریض کو اوپر بیان کردہ مرکز میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ان کی بیٹی روا شاہ آخری وقت تک ان کے علاج کی اپیل کرتی رہی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’ڈاکٹروں نے بتایا کہ اْن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ ۔ جیل کے ڈاکٹر مہینوں تک ان کو پین کلر دیکر واپس سیل میں بھیجتے تھے ۔ کئی ماہ بعد جب ان کی طبیعت بگڑ گئی، تو ا نکو پہلے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں اور پھر دلّی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ کینسر ان کے جسم میں آخری اسٹیج تک پہنچ چکا ہے۔ تیزی سے پھیلتے کینسر کی وجہ سے اْن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں۔رْوا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا جائے جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے۔سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی تھی کہ انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کو ضمانت دی جائے کیونکہ اْن کی حالت بہت تشویشناک ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر جب انکو آل انڈیا انسٹیٹیوٹ شفٹ کیا گیا، تو پہلے اس آرڈر کی تکمیل میں حکام نے دو قیمتی دن لگائے اور جب ان کو منتقل کیا گیا وہ کوما میں چلے گئے تھے۔ واضح رہے تہاڑ جیل میں قید یاسین ملک، شبیر شاہ ، آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام اور انجینئر رشید سمیت متعدد کشمیری سیاسی رہنماؤں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ اور ہمشیرہ، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز حکام سے اپیلیں کرتی رہتی ہیں کہ اْن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے یا کم از کام ان کا تسلی بخش علاج کرایا جائے۔ الطاف احمد شاہ کی کسمپرسی میں موت اشارہ کرتی ہے کہ ان لیڈروں کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ ادھار کی سانسیں لے رہے ہیں۔ جموں کے جوائنٹ انٹروگشن سینٹر میں ان کو ایک اندھیری قبر میں دیکھ کر علی گیلانی نے لکھا تھا۔۔۔ حسن جنون نواز کا پایا جو التفات مستی میں آکے موت سے ٹکرا گئی حیات جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہیگی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت ،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے ۔دل ،گردہ چاہیے ، اس میدان میں جمے رہنے کیلئے ۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اسکو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔ بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی جو منظر بھی ہے ناظر بھی