ماں کے دن کی بہت دھوم رہتی ہے مگر باپ کا دن خاموشی کی بکل مار کے آتا ہے،ماں اپنے جذبات کا اظہار آسانی سے کرلیتی ہے مگر باپ اپنے خاموش اور مطمئن چہرے کے پیچھے اپنے احساس کا جواربھاٹا چھپا کے رکھتا ہے پتہ نہیں اس کے اندر ایسی گہرائی کس طرح آجاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ باپ اپنی ذات میں بہت گہرا ہوتا ہے۔ جیسے ایک گہرا کنواں اس کونے کے اندر جھانک کر کیسے پتہ چلے کہ اندر کتنا پانی ہے۔اندر جھانکیں تو بس گہرائی اور اندھیرے کا ایک ملاپ سا دکھائی دیتا ہے۔اس کی اصل گہرائی ماپی نہیں جاسکتی۔ مجھے نہیں پتہ کہ دنیا کے سارے باپ ایسے ہوتے ہیں یا نہیں لیکن میں نے اپنے والد کو ایسا ہی دیکھا۔ جب تک ہم عملی زندگی میں نہیں آئے تھے، ہمیں ان کے معاشی مسائل کا اندازہ نہیں تھا ہمیں اس طرح پالا پوسا کہیں کوئی احساس کمتری نہیں،ہماری ذہنی ساخت ایسی بنائی کہ ہر مقام پر ہمیں یہی ذمہ داری محسوس ہوتی کہ ہمیں کشادہ دل اور فیاض رہنا ہے۔مدد کا ہاتھ آگے بڑھانا ہے اور دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنی ہے۔ میں نے یہ سب ان سے بہت بچپنے میں سیکھ لیا تھا،میں شاید چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔امتحان میں اول پوزیشن لینے پر مجھے کہانیوں کی کتابیں اور کاپیاں انعام میں ملیں۔سیکنڈ پوزیشن۔ لینے والی لڑکی غریب گھر کی بچی تھی اسے بھی کوئی چھوٹا موٹا انعام ملا تھا مگر میں نے چار میں سے دو کاپیاں اپنی غریب ہم جماعت کو دے دیں۔یہ سوچ کر کہ اسکی مدد ہو جائے گی اور نئی کلاس میں یہ کاپیاں اس کے کام آجائیں گی۔ شام کو ابوگھر آئے تو انہیں بتایا وہ بہت خوش ہوئے مجھے بہت شاباش اور انعام الگ دیا۔ہم نے ان کو ساری زندگی عملی طور پر اسی "دینے والی" فیاضانہ کیفیت میں دیکھا ان کے لیے زندگی گزارنے کا واحد نظریہ یہی ہے۔ذاتی رشتوں میں وہ اپنا حق چھوڑ کر دوسروں کو اسودہ کرنے میں لگے رہے۔انہوں نے زندگی میں اپنے فرض سے زیادہ فرض ادا کیے وہ زندگی بھر ایک ہی راستہ پر چلے جس کا نام ہے صلہ رحمی ہے۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں، پانچوں نے امی سے بہت ڈانٹیں کھائیں ہیں مگر یاد نہیں کہ ابو جان نے کبھی ڈانٹا ہو یا اونچی آواز میں بھی کچھ کہا ہو۔ باپ اکثر باپ اپنی اولاد کیلئے بہت محبت کرنے والے اور کشادہ دل ہوتے ہیں مگر بطور شوہر ان کے دل کی کشادگی اور نرمی ختم ہو جاتی ہیں مگر ہم نے اپنے والد صاحب کو دیکھا کہ وہ امی جان کے ساتھ بہت نرم مزاج تھے۔کبھی یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے اسی ناپسندیدہ کھانے پر یا گھر کے کسی معاملے پر امی جان کے ساتھ ترش لہجہ یا سخت الفاظ استعمال کیے ہوں۔ ابوجان تحمل اور صبر کا مجسمہ ہیں۔ امی کا مزاج اس کے بالکل برعکس تھا۔پانچ بچوں کو اسکول بھیجنا پھر ان کو پڑھائی میں مصروف رکھنا ان کے اچھے نمبروں کی تگ و دو کرنا اور ان کے لیے صحت بخش کھانے بنانا اور پھر اپنے ذاتی دکھوں کے مدوجذر میں ڈوبتے ابھرتے رہنا،یہ سب امی جان کی حساس اور زود رنج طبیعت پر اثر انداز ہوتا ۔انہیں غصہ جلدی آجاتا تھا،ہم نے ساری ڈانٹیں اپنی امی جان سے کھائی ہیں۔ چھوٹے تھے تو کبھی ایسا ہوا کہ ابوجان کے گھر آنے پران سے امی جان کی ڈانٹ کا شکوہ کیا،ابو جان ہماری ساری بات توجہ سے سن کے کہتے کہ دیکھو اپنی امی جان کا خیال رکھو نہ اس کا باپ ہے نہ اس کی ماں ہے ،بھائی بھی فوت ہوگیا، ایک ہی بہن ہے جو برسوں سے بیمار ہے، اس لیے اپنی امی کو کم ستایا کرو۔ آج جب میں خود کو زندگی کی پتھریلی شاہراہ پر چلتے ہوئے دیکھتی ہوں زندگی کے بہت سارے بھید مجھ پر کھل چکے ہیں مجھے اندازہ ہوتا ہے شوہر کا اپنی بیوی کے لئے ایسا محبت آمیز نرم احساسات سے بھرا ہوا دل تو ایک نایاب تحفہ ہے۔بطور شوہر بھی ابو جان ہمارے خاندان اور آس پاس میں ایک آئیڈیل کے طور پر سراہے جاتے رہے ہیں۔ وقت بھی عجیب ظالم چیز ہے۔ اس کے بہاؤ میں ہر شے بدل رہی ہے چہرے خدوخال شکلیں۔۔ والدین بچوں کو شیر خوراگی کی عمر جوان اور توانا اور خود کفیل ہوتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو وقت کے اسی بہاؤ کا تجربہ بچوں کے لیے مختلف ہوتا ہے کہ وہ اپنے مضبوط اور توانا والدین کو اپنی سامنے کمزور،نحیف اور بوڑھا ہوتے دیکھتے ہیں۔بڑے ہونے میں ایک خسارہ یہ بھی ہے کہ والدین کے ساتھ بچوں کا لمس کا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ماں کے ساتھ تو یہ جذباتی رشتہ برقرار رہتا ہے مگر باپ کے ساتھ جذبات کے اظہار کی وہ سہولت نہیں ہوتی کیونکہ باپ بھی ساری عمر اپنے احساسات چھپا کے رکھتا ہے۔ اپنے بوڑھے والد کے ساتھ لمس کے رشتے کو زندہ رکھیں۔ کچھ دیر کو سہی ان کے قدموں میں بیٹھیں ان کے ہاتھ کو چوم کے اپنے آنکھوں کو لگائیں۔ میں اپنے والد صاحب سے ملنے کے لیے جاؤں تو مجھے ان کے برابر صوفے پر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا۔ قالین پر نیچے بیٹھ کر ان کے پاؤں دبانا اچھا لگتا ہے اگرچہ وہ بالکل یہ کام کرنے نہیں دیتے مگر میں بھی اس کے بغیر نہیں ٹلتی کوشش کرتی ہوں کچھ دیر ہی سہی اس چھاؤں میں ضرور بیٹھوں۔چند روز پیشتر جب ایک بوجھل اور تھکے دن کی شام میں ابوجان سے ملنے کے لیے گئی۔بصد اصرار ان کے قدموں میں بیٹھ گئی، میرے ہاتھوں میں وہ سال خورہ بوڑھے پاؤں تھے، میں نے زیتون کے تیل سے ان برکت والے کھردرے پیروں کو ذرا سی دیر سہلایا تو تھکن کی دھند خود میرے اندر سے چھٹنے لگی۔۔! پھر میرے ہاتھوں میں صرف وہ بوڑھے پاؤں رہ گئے تھے جو وقت کے شاہراہ پر چلتے چلتے سخت اور کھردرے ہوچکے تھے جن کی بے پایاں مشقتوں اور محنتوں سے میں آج اس مقام پر پہنچی۔۔میں نے نرم بوڑھا ، برکت والا ہاتھ چوم اپنی آنکھوں پر لگایا ،انہیں روشن کیا۔۔ مجھے لگا دن یہاں آکے مکمل ہوگیا ہے۔پس تحریر: ہمارے سارے دن والدین کے دن ہیں۔ الحمدللہ