خلافت راشدہ کے تیس سالہ دور کا مجموعی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو وہ چودہ سو برس کی طویل ترین تاریخ کا ایک روشن باب ہے، ہر دور اپنے مقاصد واہداف میں ، اور اپنے معالم ونقوش میں دور نبوت کے انتہائی قریب تھا اور یہ وہ خصوصیت ہے، جو اسے مستقبل کی تمام خلافتوں سے ممتاز ومنفرد بناتی ہے، بعد والوں نے خلافت کے اس اعلی دور تک پہنچے کی کوشش نہیں کی، اس سلسلے میں صرف ایک نام اموی خلیفہ حضرت عمربن عبدالعزیز ؓ کا لیا جاسکتاہے، جن کی مدت خلافت صرف دو برس ہے، لیکن ان دو برسوں میںانہوں نے خلفائے راشدینؓ کے نقوش قدم کو اپنی ذاتی سیرت اور سیاسی زندگی میں مشعل راہ بناکر یہ ثابت کردیا کہ اگر کوشش کی جائے تو خلافت کے اعلیٰ معیار تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے، اور اس زمانے کو واپس لایا جاسکتا ہے۔ فلاحی معاشرے سے مراد ایسے نظم حکومت کا تصور ہے ،جس میںریاست اپنے شہریوں کے سماجی اور معاشی تحفظ اور ترقی کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسا معاشرہ یکساں مواقع کی فراہمی، دولت کی منصفانہ تقسیم اور مناسب ضروریاتِ زندگی تک عام آدمی کی پہنچ یقینی بنانے کے لیے عوامی ذمہ داری کے تعین جیسے اصول پر مبنی ہوتا ہے۔جدید عمرانیات کہتی ہے : اب فلاحی ریاست کی جگہ فلاحی معاشرے کو لے لینی چاہیے کیونکہ معاشرے اور ریاست کو الگ تصور کیا جانا درست نہیں۔ اسلامی حکومت بے سہارا لوگوں، عورتوں، بچوں اور عمررسیدہ افراد کے لیے بیت المال سے خرچہ فراہم کرتی تھی۔ خلفائے راشدین کے دورتک اس پر برابر عمل ہوتا رہا۔ریاست نہ تو مطلق اچھائی ہے جیسے اجتماعیت پسندوں کا خیال ہے اور نہ ہی لازمی برائی ہے جیسے انفرادیت پسندوں کا خیال ہے۔ہر ریاست کچھ کام کرتی ہے جو لوگوں کی سماجی اور معاشرتی ترقی اور دیگر عوامل سے مختلف ریاستوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ریاست معاشرے اور حکومت سے مختلف ہے ،اس کے دائرہ کار میں پوری انسانی زندگی نہیں آتی،ریاست کو اپنے آپ میں نظم و ضبط قائم کرنے انصاف فراہم کرنے ، اپنی سرزمین کا دفاع کرنے اور کچھ منصوبہ بندی تک محدود رکھنا چاہیے۔ ریاست کے ہر فعل کو واضح طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ ریاست مقصود بالذات نہیں بلکہ اسے شہریوں کے ترقی،خوشحالی اور فلاح کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ریاست اجتماعی اور انفرادی مفاد توازن قائم کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ ریاست کے عمل کا دائرہ کار متعین ہونا چاہیے، ریاست کو بہت سے کام لازما کرنا ہوتے ہیں جیسے: اپنی سرحدوں کا دفاع، اپنے حدود میں نظم و ضبط کو قائم کرنا،انتظامی اور عدالتی نظام قائم کر کے اپنے برادری کو منظم کرنا،نظام چلانے کے لیے محصول اور دیگر فنڈز کا اکٹھاکرنا،کرنسی کا اجرا اور مالیات کے نظام کو چلانا۔ بہت سے وظائف ایسے ہیں جنہیں ناظمانہ وظائف کہا جاتا ہے۔ یہ وظائف ہیں، جنہیں ریاست اپنے کارکنوں کے ذریعے سے خود سر انجام نہیں دیتی بلکہ ان کے بارے میں صرف ہدایات دیتی ہے ۔بہت سے وظائف ایسے ہیں ،جو ایک ریاست کے لیے لازمی تو نہیں البتہ ریاست کو ادا کرنے چاہیے، خاص کر اگر وہ ریاست ایک فلاحی ریاست ہونے کا دعوی کرے۔چند یہ ہیں: تمام شہریوں کے زندگی کے گزر بسر کے لیے خوراک،لباس اور رہائش کا انتظام کرنا۔بڑھاپے کے لیے پنشن تمام شہریوں کے لیے لازمی اور یکساں نظام تعلیم۔مستحق شہریوں کے لیے مفت علاج وغیرہ اس میں شامل ہے ۔ فلاحی ریاست ایسی مملکت کو کہا جاتا ہے، جس میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور اْن کی سماجی ترقّی، معاشی خوش حالی اورزندگی گزارنے کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی اوّلین ذمّہ داری ہوتی ہے۔ فلاحی ریاست کا ڈھانچہ ، ایسے جمہوری اصولوں پر استوار کیا جاتا ہے ، جن میں اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ریاست کا کوئی بھی شہری بنیادی انسانی حقوق، اور شہری آزادیوں سے محروم نہ رہے اور ہر شہری کو زندگی کی بنیادی سہولیات بلا امتیاز میسّر ہوں۔ فلاحی ریاست کی بنیادی ذمّہ داریوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار، پبلک ٹرانسپورٹ، سینی ٹیشن، سیوریج، اسکول، کالجز، یونیور سٹیز، فنّی تعلیم اورتکنیکی تربیت کے ادارے ، مراکز صحت، ہسپتال، دوائیں، چائلڈ کیئر، بیروزگاری الاؤنس، معذوری الاؤنس، سوشل سیکیورٹی، اولڈ ایج بینیفٹ، ریٹائرڈمنٹ پنشن، وغیرہ شامل ہیں۔ فلاحی ریاست کا بنیادی اصول ہر شہری کو بلا امتیاز مذہب، عقیدہ، زبان، لسّانیت، قومیت، رنگ و نسل مساوی شہری حقوق اور انصاف کی فراہمی ہے۔ فلاحی ریاست کے ڈھانچے میں محروم طبقات کے لئے مساوی شہری حقوق، دولت کی مساوی تقسیم، وسائل میں منصفانہ شراکت، سماجی ذمّہ داریوں کی منصفانہ تقسیم، طبقاتی فرق کا خاتمہ اور انسانی برابری کو یقینی بنانے کے لئے نظام وضع کئے جاتے ہیں۔ مشہور سوشیالوجسٹ ٹی ایچ مارشل کے مطابق جدید فلاحی ریاست کا بنیادی ڈھانچہ تین ستونوں۔ جمہوریت ، آزاد معیشت اور عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں پر قائم ہوتا ہے۔ نیڈا، جرمنی، فرانس، بیلجیئم، نیدرلینڈ اور نارڈک ممالک یعنی سوئیڈن، ناروے ، ڈنمارک، فن لینڈ ، آئس لینڈ ، دنیا میں ماڈرن ویلفیئر اسٹیٹس کی مثالیں ہیں۔ سوشیالو جسٹ اسپنگ اینڈرسن نے ویلفیئر اسٹیٹس کو مزید تین درجوں یعنی ڈیموکریٹک، کنزرویٹِو اور لبرل میں تقسیم کیا ہے۔ ویلفیئر اسٹیٹس کی تشکیل میں سیکیولرازم، لبرل ازم، مارکس ازم اور سوشل ڈیموکریسی جیسے نظریات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ویلفیئر اسٹیٹس کے مالی نظام میں حکومت کی آمدنی کا انحصار پبلک فنڈز یعنی ٹیکسوں اور دیگر محصولات پر ہوتا ہے۔ اور یہی آمدنی شہریوں کی فلاح و بہبود کے پروگراموں اور انفراسٹرکچر کی ترقّی پر خرچ کی جاتی ہے۔ دنیا میں ہر کامیاب ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیاد جمہوریت پر قائم ہوتی ہے۔ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے، جسں میں سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے سے قبل اپنے اپنے منشور میں عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود کا پروگرام پیش کرتی ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد شہریوں کی مادّی فلاح کو یقینی بناتی ہی۔،چونکہ حکومت کی آمدنی کا انحصار پبلک فنڈز پر ہوتا ہے لہٰذا حکومتیں عوام کے سامنے جواب دِہ ہوتی ہیں۔ ویلفیئر اسٹیٹس کے مالیاتی نظام میں پبلک سے فنڈز وصول کرتے وقت پروگریسوِ ٹیکس سسٹم کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے تاکہ امیروں سے زیادہ سے زیادہ اور غریبوں سے کم سے کم ٹیکس وصول کیا جائے اور اس رقم سے غریبوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات بہم پہنچائی جا سکیں تاکہ دولت کی مساوی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوسکے اور طبقاتی فرق کو ختم کیا جاسکے۔ کامیاب فلاحی ریاست کے ڈھانچے میں پارلیمانی جمہوریت اور تین سطحی نظام حکومت یعنی میونسپل، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا قیام اور ایسے مضبوط سوشل انسٹی ٹیوشنز کا جال بچھایا جاتا ہے جو شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ پبلک ، پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت، عوامی خدمت کے غیر منافع بخش اداروں، ٹریڈ یونین، عبادت گاہوں، فوڈ بنک، اور رفاحی اداروں کو سوشل ویلفیئرسروسز فراہم کرنے کے لئے چیریٹی فنڈز میں اعانت اور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ذرا سوچیں !