11نومبر2023ء سوارکو حسب توقع مقبوضہ کشمیر سے ہٹائے جانے والے بھارتی قانون کے دفعہ 370 پر بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس لئے اس لئے دفعہ 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کی یہاں کوئی ضرورت نہیں۔ 5 اگست 2019ء کوبھارت نے مقبوضہ کشمیر سے اس دفعہ کوہٹا دیا تھا بھارت نواز چند سیاست کاروں اور وکلاء نے بھارتی سپریم میں اسے چلینج کیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلے کے حوالے سے اہل کشمیر پہلے سے باخبر تھے کیوںکہ بابری مسجد اورافضل گوروشہید کے کیس ان کے سامنے تھے اس لئے ان کے لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات یا خلاف توقع ہرگز نہیں۔ دراصل مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو جکڑ کے رکھ دینا بھارتی انتظامیہ ،مقننہ اورعدلیہ کی مشترکہ پالیسی ہے تاکہ وہ تنگ آکر تحریک آزادی سے دستبردار ہوں۔لیکن یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ 33 برسوں سے عتاب کا شکار ہیں بھارت نے یہاں کالے قوانین کا نفاذ کر رکھا ہے جس سے یہاں کی ساری آبادی پیچ وتاب کھا رہی ہے مگر اس ظلم عظیم کے باوجود آج تک کشمیریوں نے تحریک آزادی سے دستبرداری اختیارنہیں کی ۔ چار سو جب کالے قوانین کے خنجرپیوستہ ہوںتوایسے گھٹن زدہ ماحول میں آبادی کی اذِیّت اور کوفت کا اندازہ نہایت آسانی سے لگایا جا سکتا ہے ۔ جب ایک ظالم،سفاک اور درندہ صفت فوج قتلِ عام کے لائسنس کی حامل ہوتو وہاں انسانوں کی حالت کس قدر ابتر ہو گی۔ ارض کشمیر پر بھارتی فوجی درندے چنگاڑ رہے ہیں۔ جس کو، جب، جہاں، جیسے چاہیں ختم کر دیں، کسی خاتون کی عزت تار تار کردیں، کسی گھر کو آگ لگا دیں، کسی خاندان کو اجاڑ دیں، کسی کا سہاگ چھین لیں، کسی کو یتیم کر دیں، کسی کو بے سہارا کردیں - جب، جہاں، جو چاہیں کر گزریں ۔ فوجی طاقت، ریاستی دہشت گردی کے وحشیانہ استعمال اور مقبوضہ علاقے میں رائج کالے قوانین کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کوکچلنے میں ناکام ہونے کے بعد مقبوضہ علاقے میں کشمیریوںکو ان کی زمینوں سے جبری طور پر بے دخل کرنے کے لئے اراضی کا نیا قانون متعارف کرایا گیا۔ مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی فوج کی وحشیانہ درندگی کو قانونی جواز دینے والے قانون سازاُن بے لگام سفاک بھارتی فوجیوں سے بھی بڑے درندے ہیں جو ایسے سفاکانہ قانون بناکر مقبوضہ جموںوکشمیر پر لاگوکرتے ہیں ۔ ارض کشمیر پرجبری قبضہ جمانے کے ساتھ ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کئی طرح کے کالے قوانین نافذ کررکھے ہیں۔ قابض بھارتی فوج کو بھی بغیر کسی ٹرائل، بغیر گواہی، بغیر شہادت، بغیر ثبوت کے گرفتارکرکے دوسال کے لئے جیل میںڈالنے کا اختیار ہے۔ کسی پر یہ گمان ہو جائے،کہ کسی بھی دن وہ بھارت مخالف کام کر گزرے گا تواس سیاہ قانون کے تحت قابض بھارتی درندے اس کو بھی اٹھا کر لے جا تے ہیں۔ دوسرابھارتی قانون جو ارض کشمیر پر جبری طورلاگو ہے اسکانام’’آٓرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ‘‘ یا( AFSPA1990)مختصر اور آسان لفظوں میں اس سیاہ قانون کے تحت مقبوضہ جموںو کشمیرمیںقابض بھارتی فوج کے کسی بھی ’’نان کمیشنڈ آفیسر‘‘ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ محض شبہ کی بنیاد پرکسی فرد،افراد یا اجتماع، جلسے یاجلوس پر فائر کھول سکتا ہے ۔ وہ کسی بھی گھرمیں رات ہو یا دن داخل ہوکراس کی تلاشی لے سکتا ہے اورگھر کے مکینوں کے ساتھ نارواسلوک کرسکتا ہے ۔ جب چاہے کسی بھی،بستی ،مسجد،دینی ادارے یا بازار کی بغیر کوئی وجہ بتائے تلاشی لے سکتا ہے، بلا وجہ اپنی مرضی کے مطابق مسلمانان کشمیر کو گھروں سے نکال کر باہر کھڑا کر سکتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں نافذ یہ بھارت کا وہ کالا قانون ہے جو قابض بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیرمیں کئے جانے والے ہر جرم پر کورٹ ،کچہری میں کھڑاکرنے اورسزا یا مقدمے سے مستثنیٰ قرار دیتاہے، بھارت کے اس کالے قانون کے خلاف عالمی حقوق کی تنظیمیں مسلسل رپورٹ شائع کرتی چلی آرہی ہیں حتیٰ کہ 2012ء میں جب بھارتی پارلیمنٹ میں ترمیم لائی گئی تھی جس میں کہاگیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں زنا بالجبر کو اس قانون کے تحت استثنیٰ نہ دیا جائے لیکن یہ ترمیم منظور نہ ہوئی جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ بھارتی پارلیمان نے قابض بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیرمیں مسلمان خواتین کی عزت اوران کی حرمت کو پامال کرنے کے لائسنس کی توثیق کردی۔ ترمیم شدہ قانون کے تحت گرفتار افراد کے لیے طویل مدت تک عدالت میں پیشی یا عدالت سے ضمانت نہایت مشکل ہوتی ہے۔ اس سیاہ قانون کے تحت نہایت ظالمانہ طریقے سے عام شہریوں، صحافیوں، رضاکاروں اور طلباء پر مقدمات دائر کئے جاتے ہیں۔کرکٹ ورلڈ کپ 2023 ء کے فائنل مقابلے میں آسٹریلیا کی کامیابی پر جشن منانے پرمقبوضہ کشمیر کے گاندربل ضلع میں ویٹرنری کالج جس میں کُل 300 طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے تقریباً 40 کا تعلق راجھستان، پنجاب اور دیگر انڈین ریاستوں سے ہے کے ہوسٹل میں 7 کشمیری طلباء کو گرفتار کیا گیا۔ ان طالب علموں پربدنام زمانہ سیاہ قانون (UAPA) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ۔ان طلباء کے خلاف درج ایف آئی آر میں لکھاگیاہے کہ ان طلباء نے آسٹریلیاکرکٹ ٹیم کے ہاتھوںبھارت کی کرکٹ ٹیم کی شکست پر ’’جیوے جیوے پاکستان ‘‘کے نعرے لگائے جس سے غیر کشمیری طلباء پرخوف طاری ہوا۔ ایف آئی آر میں لکھاگیا کہ یہ معاملہ تنقید یا اظہار رائے کی آزادی کا نہیں بلکہ ایسے لوگوں کو دہشت میں مبتلا کرنے کا ہے جو انڈیا کے حق میں اور پاکستان کے خلاف جذبات رکھتے ہیں۔ایف آئی آر میں لکھاگیا ہے کہ یہ کارروائی محض نعرے بازی پر نہیں،بلکہ یہ ہند مخالف جذبات کاکھلم کھل ااظہارکرنے پر کی گئی ہے۔