رتی اور جناح صاحب منزل پر پہنچ گئے تب بھی حالات بہتر نہیں ہوئے۔ رتی کو انہوں نے اپنے وقتی گھر میں ٹھہرایا اور خود جلد ہی اپنی مصروفیات میں مصروف ہو گئے۔ ادھر رتی (مریم) یہ محسوس کرتی تھیں کہ ایک قیدِ تنہائی سے نکل کر وہ دوسری قید میں منتقل ہو گئی ہیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی دینا کی پیدائش 14 اگست کی آدھی رات کو ہوئی۔ جناح صاحب نے نومولود کے لیے بہترین نرسوں کا بندوبست کر کے زچہ و بچہ کو ان کے حوالے کیا اور اپنے معاملات کی جانب بڑھ گئے۔ قائدِ اعظمیقیناََاپنے دور کے ایک غیر معمولی ہیرو تھے مگر انہیںپنی ذاتی زندگی پر اپنی سیاسی جدوجہد کو ترجیح دینا ضروری تھا۔ اس وجہ سے رتی (مریم) اور جناح صاحب میں دوری بڑھتی رہی جو 1928 میں انتہا کو پہنچ گئی۔ جناح صاحب بھی اپنی نجی زندگی کے فکری دباؤ سے پریشان تھے مگر دونوں میں سے کوئی بھی جھکنے کو تیار نہ تھا۔ جناح صاحب اور (مریم) جناح کے بیچ فاصلے بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ گو کہ رتی نے ہر قدم پر ساتھ دینے والی بیوی کا ساتھ نبھایا مگر قائد اعظمؒ ان کے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا ندازہ نہ کر سکے۔ دونوں میں محبت کے باوجود فرقت کی لکیریں مٹنے کی بجائے گہری ہونے لگیں۔ قائدِ اعظم اپنی سیاسی مصروفیات کے باعث رتی کی 19 ویں سالگرہ کا دن یاد رہا اور نہ شادی کی سال گرہ۔ رتی جناح بھی ان کی سیاسی مصروفیات کا صحیح اندازہ نہ کر پائیں اور رنجیدہ ہوئیں۔ شادی بھنور میں پھنس گئی اور تی شدید بیمار ی کے باعث علاج کے لئے پیرس چلی گئیں۔ ان کے نظامِ انہضام نے آنتوں کو بہت خراب کر دیا۔ زندگی کے آخری مہینوں میں وہ شدید ذہنی کرب کا شکار بھی ہوئیں۔ رتی (مریم) صاحبہ نے فقط زندگی کی 29بہاریں دیکھیں۔ بمبئی کا حسین گلاب بھری بہار میں مرجھا گیا۔ مریم جناح نے شاہانہ زندگی گزاری مگر جناح صاحب کے لیے ان کی وفاداری خلوص اور محبت میں کوئی کمی نہیں آئی جس رومانوی اظہار کی منتظر مریم ہمیشہ رہتی تھیں وہ قائد کی پر وقار او سنجیدہ طبیعت میں نہیں تھا ۔ اس صورت ِ حال کی وجہ سے دونوں کے مابین خلیج وسیع ہوگئی جو1928 میں انتہا کو پہنچی۔ جذباتی اعتبار سے شاید اب دونوں کے لئے مل جل کر رہنا ممکن نہیں رہا تھا اور آخر کار وہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جْدا ہوگئے۔ اپنی محبوب ترین رفیقہء زندگی سے علیحدگی کے بارے میں قائد اعظم نے کبھی کسی سے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ بیگم مریم جناح اوائل جوانی سے ہی شدید معدے کے امراض کا شکار تھیں۔ 1928کے اوائل میں وہ شدید علیل ہوئیں اور پیرس میں زیر علاج رہیں۔ یہ سیاست کا وہ نازک دَور تھا جب نہرو رپورٹ پر بحث ہورہی تھی لیکن قائداعظم اپنی علیل اہلیہ کے پاس پیرس پہنچ گئے۔ اْن کی زندگی کے آخری مہینوں میں صحت کے مسائل مزید سنجیدہ ہوگئے کیوں کہ وہ شدید ذہنی کرب اور دباؤ کا شکار بھی تھیں۔ اس وقت تک بے خوابی اور بے چینی کا معالجوں کے پاس کوئی علاج دریافت نہ ہوا تھا۔ قائداعظم نے بیگم صاحبہ کو شانزے لیزے کے ایک بہترین کلینک میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی بیماری اْن کے درمیان دونوں کی دوری کو ختم کرنے کا ذریعہ بنی۔ قائد اعظم چھ ماہ تک اپنی اہلیہ کے سرہانے ہی موجود رہے۔ دونوں کے درمیان ناپسندیدگی کا کوئی اظہار نہیںتھا۔ لیکن اْن میں پھر جھگڑا ہوگیا اور وہ پھر بمبئی واپس چلے گئے۔ مریم جناح نے اپنی بیماری کے دوران قائد اعظم کو محبت بھرا خط لکھا؛’’اگر مَیں آپ سے کم محبت کرتی ہوتی تو مَیں آپ کے ساتھ رہتی۔مَیں نے آپ کو اس قدر ٹوٹ کر چاہا جیسے شایدہی کوئی کسی کو چاہتا ہو۔ آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ ہمارے جس تعلق کا آغاز محبت پر ہوا، اْس کا ختتام بھی محبت پر ہونا چاہیے۔‘‘ خط کا اختتام شاعرانہ تھا کہ: ’’مجھے یادرکھنے کی کوشش کرنا ، مَیں نے بہت تکلیف اْٹھائی ہے کیوں کہ مَیں نے آپ سے پیار کیا ہے۔ میری اذیت میرے پیار سے کم نہیں۔‘‘ یہ محبت نامہ شاید برِصغیر کے کسی شاندار لیڈر کو اس کی اہلیہ کی طرف ایک عجیب سا خط ہے بالکل ویسے ہی دلیرانہ انداز جیسے رتی نے اپنی محبت کا اظہار کرنے میں پہل کی تھی۔20فروری 1929 بروز بدھ عین اپنی سال گرہ کے دن بیگم مریم جناح نے اپنی آخری سانس لی اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ قائد اعظم رنج و غم میں ڈوبے ہوئے اپنی اہلیہ کی میت کے پاس خاموش بیٹھے رہے۔ رتی جناح کی موت جناح صاحب کے لیے جاں گسل لمحہ تھی۔ مریم جناح ہندوستان کی روشن خیال، تعلیم یافتہ اور گہری سیاسی بصیرت سے مالا مال خاتون تھیں۔ ان کے سینے میں ایک حساس اور رومانوی دل دھڑکتا تھا۔ رتی کی موت سے قائدِ اعظم کا دل ٹوٹ گیا۔ جناح صاحب نے اس کے بعد اْنیس سال تنہا ہی گزارے۔ رتی بمبئی کے علاقہ آرام باغ میں واقع جناح خاندان کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ اپنی اہلیہ کے ذوقِ سفر کے مطابق قائداعظم نے جسد ِخاکی کو لے جانے کے لیے بگھی کا انتظام کیا۔ بگھی کے آگے آگے تلوار بردارگھڑ سوار محافظ دستہ رواں دواں تھا۔ جب میت قبر میں اْتار ی گئی تو جناح صبر و ضبط کو توڑتے ہوئے سر جھکا کر ہچکیوں سے رونے لگے۔