سائنسی تحقیقات روح کی حقیقت کا کھوج لگانے میں ناکام ہیں۔قرآنِ حکیم نے فرمایا:’’روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے۔اور تمہیں اس کا بہت کم علم دیا گیا ہے‘‘۔زندگی جسم اور روح کے تعلق کا نام ہے اور اسی تعلق کے ٹوٹنے کو موت کہتے ہیں۔ قرآن میں موت کو نیند سے مشابہت دی گئی ہے۔ سائنس کے مطابق موت کسی بھی ذی روح کی طبیعاتی حرکیات اور حیاتیاتی افعال کے رک جانے کا نام ہے۔موت مگر اچانک برپا ہونے والا ایک حادثہ نہیں، ایک تدریجی عمل ہے۔ حواسِ خمسہ ایک طے شدہ ترتیب کے تحت معدوم ہونا شروع ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سننے کی صلاحیت سب سے آخر میں فنا ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ افراد جو کسی سرجری سے قبل ارادی طور پر بے ہوش کئے جاتے ہیں، حواس کی بحالی کے بعدخود پر گزری کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔مصنوعی بے ہوشی کا یہ عرصہ ان کی زندگیوں میں ایک سیاہ خلاء کی صورت ہمیشہ معلق رہتا ہے۔ کسی حادثے یا شدید بیماری کے نتیجے میں دائمی بے ہوشی کی حالت یا لائف سپورٹ مشینوں کے ذریعے زندہ رکھے جانے والے افراد کے بارے میںمگر کہا جاتا ہے کہ ظاہری طور پرتو وہ بیرونی عوامل مثلاََ روشنی ،لمس یاآواز پر رد عمل دینے سے قاصر ہوتے ہیں، تاہم اندرونی طور پر وہ احساسات سے عاری نہیں ہوتے۔ بسترِ مرگ پرطویل بے ہوشی، مصنوعی تنفس اور’سکتے‘ کی کیفیت سے گزرنے والوں پر کیا گزرتی ہے؟ظاہر ہے کہ جو افراد واپس نہ آنے کے لئے موت کی تاریک وادی میں اتر گئے ہوں، ان کے احساسات و کیفیات سے آگہی تو کسی کے بس کی بات نہیں، تاہم ’دنیا کے اُس پار اترنے‘ سے عین پہلے لوٹ آنے والوں کے مشاہدات پر مبنی بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ہیڈلی ولاہس ایکHospice نرس ہیں کہ جو ایک ایسے ہسپتال میں کام کرتی ہیں جہاں ایسے مریضوں کو لایا جاتا کہ جن کا مرض لاعلاج ہو چکا ہوتا ہے۔ ہیڈلی کی’ In between‘ نامی کتاب طویل بے ہوشی کے بعد ہوش میں آنے والوںکے انٹرویوز کے علاوہ قریب المرگ افراد کے آخری لمحات سے متعلق ان کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔اس امر سے قطع نظر کہ وہ مذہبی نظریات میں یقین رکھتے تھے یا نہیں، زندگی اور موت کے بیچ سرحدکو چھو کرلوٹ آنے والوں کے مشاہدات میں ہمیشہ سے غیر معمولی مشابہت پائی جاتی رہی ہے۔ان میں اکثر افرادکے مطابق اپنے سرہانے کھڑے ڈاکٹرکو اپنی موت کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے خود سنا۔اکثر نے اپنا جسم چھوڑکر اپنے جسدِ خاکی کے اوپرپھڑپھڑانے اور اپنے عزیزو اقارب کی گفتگو سننے کا بھی بتایا۔کئی افراد نے بتایا کہ مردہ قرار دیئے جانے کے بعد وہ تیزی سے ایک تاریک گہری سرنگ میں اترنے لگے۔ تاہم تاریک سرنگ سے نکلتے ہی انہیں ایسے لگا جیسے وہ کسی پُر اسرار ماحول میں ایک غیر مرئی سرحد کے اوپر کھڑے ہیں۔اسی سرحد پر ان کی ملاقات ایک نورانی وجود سے ہوتی ہے کہ جس کے حلئے کو وہ الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔یہیں ان افراد کو اپنے بچھڑے ہوئے عزیز و اقارب دکھائی دینے لگتے ہیں۔یہاں ہونے والی تمام گفتگو میں خیالات ،الفاظ اور آوازوں کی صورت میں نہیں بلکہ ایک عجیب انداز میں خود بخود ایک دوسرے کے اندر منتقل ہوتے ہیں۔ ہیڈلی ولاہس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ دائمی بے ہوشی کا شکار ایک بوڑھا شخص ایک روز اچانک ہوش میں آکرکمرے میں اپنی دوسالہ بچی کو ڈھونڈ نے لگا کہ جو برسوں پہلے وفات پا چکی تھی۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال میں زیرِ علاج جوناتھن کوچ کو ڈھائی ہفتے کی بے ہوشی کے دوران عجیب کیفیات سے گزرنا پڑا۔بے ہوشی کے تمام عرصے میں اسے اپنا جسم لکڑی کی مانند اکڑا ہوا محسوس ہوتا رہا۔ اسی کیفیت میں خلاء کے اندر تیرنے کے احساس کے دوران ماضی کے بھولے بسرے چہرے اور واقعات فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلتے رہے۔ ارد گرد مانوس آوازیں کبھی سرگوشیوں اور کبھی یک دم بلند ہوکر شور میں بدل جاتیں۔ایک روز کمرے میں چکا چوند کر دینے والی روشنی پھیلی اور جوناتھن نے خود کو ڈاکٹروں اور نرسوں کے نرغے میں پایا۔ موت کو چھو کر زندگی کی جانب لوٹ آنے والوں کے علاوہ ہیڈلی ولاہس نے اپنی کتاب میں مرنے والوں کے آخری لمحات کے بارے میں بھی اپنے مشاہدات رقم کئے ہیں۔نرس کے مطابق کئی مرنے والے بہت پہلے بتا دیتے کہ اُن کا وقت آچکا ہے۔حیران کن بات مگر یہ ہے کہ ان مرنے والوں میں سے کئی افراد تمام تر طبی مشکلات کے باوجوداُس وقت تک ’خود کو زندہ رکھتے‘ ہیںکہ جب تک کوئی پیارا کہ جس کے وہ شدت سے منتظر ہوتے ہوں، انہیں خدا حافظ کہنے ان کے سرہانے نہ پہنچ جائے۔ آج سے لگ بھگ دو برس پہلے، زندگی کی نوے بہاریں دیکھنے کے بعد مسعود حسن بالآخرکرونا کا شکار ہوکر مصنوعی تنفس کے سہارے قریباََ دو ہفتوں سے زندگی اور موت کی سرحد پر کھڑے، بظاہردنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو چکے تھے۔ ڈاکٹروں کی رائے میں ان کا زندگی کی طرف واپس لوٹنا تقریباََ نا ممکن ہو چکاتھا۔ لاہور کے ایک ہسپتال کے’ انتہائی نگہداشت وارڈ ‘میں ان سے ملاقات دستانے ، ماسک اور حفاظتی لباس پہن کر ہی ممکن ہوتی۔ ان کی وفات سے ایک روز قبل میں نے انہیں آخری بار ایس او پی کے مطابق ایک محتاط فاصلے پر کھڑے ہوکردیکھا۔ کچھ دیر دیکھتے رہنے کے بعد میں اسلام آباد لوٹ آیا ۔تمام راستہ ان کے سوجن زدہ بازو، پائوں اور چہرے پر تکلیف کے آثارمیری آنکھوں سے سامنے گھومتے رہے۔ ارحم حسن میرے چھوٹے بھائی کا بیٹا اور تمام پوتے پوتیوں میں سے اپنے دادا کا سب سے لاڈلہ تھا ۔آخری دنوں میں وہی ان کا ہم دم اور ہم راز تھا۔ اب جو دادا ہسپتال میں تھے تو بچوںکے غیر ضروری طور پر کرونا وارڈ میںداخلے کے ہم سب حق میں نہیں تھے۔یوں بھی ارحم اب میڈیکل کی جان گسل پڑھائی میں الجھاہواتھا۔ چنانچہ جب سے داداگھر سے ہسپتال گئے تھے، وہ انہیں دیکھنے وہاں نہ جا سکا تھا۔ایک روز بیٹھے بٹھائے مگر اُسے نا جانے کیا ہوا کہ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر اچانک اس نے گاڑی نکالی، ہسپتال پہنچا اور بناء ماسک ، دستانوں یا کسی احتیاطی بندوبست کے کرونا کے انتہائی نگہداشت وارڈ میںداخل ہوگیا۔دادا کے ہاتھ کو ہاتھوں میں لے کر ’دادا، دادا‘ پکارنے لگا۔دادا کی چھاتی کو ہلکے سے دبایا۔پیشانی پر ہاتھ رکھا تو سفیدبھنوئوں کے بیچ کئی روز سے جمی شکنیں تحلیل ہو نے لگیں۔ چہرے پر دائمی سکون لوٹ آیا۔عشروں کی مسافت طے کرنے کے بعد تھکے ماندے مسافر نے ایک گہرا سانس بھرااور اُفق کے اس پار اُتر گیا۔ ڈاکٹر نے اعلان کیا توجسد خاکی کا چہرہ ڈھانپ دیا گیا۔دنیا کے اُس پار جہاںایک نورانی وجود اور برسوں سے بچھڑے ہوئے پیارے جسدِ خاکی کو چھوڑنے والی روح کیلئے منتظر کھڑے ہوں گے، ارحم حسن دادا کو خدا حافظ کہنے کے بعد خاموشی سے گھر لوٹ آیا۔