کئی دہائیوں سے جاری و ساری ادبی تگ و دَو، علمی کھُدبُد، تقریباً پورے اُردو ادب کے عمیق، دقیق، رحیق مطالعے اور دنیا بھر میں ادب کے معاشروں پر اثرات کے سرسری مشاہدے کے بعد جو ہمارا من پسند، حتمی اور قابلِ فخر ادبی عقیدہ مرتب ہوا ہے، وہ یہی ہے کہ: ہم میر فقیر کے عاشق ہیں ہم غالب والب جانتے ہیں اقبال جہاں میں ایک ہی ہے ہم اُس کو مرشد مانتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ اقبال جیسے لوگ، کسی قوم میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان پہ نظرِ کرم یا احساسِ ترس و ترحم کے پیشِ نظر انھیں عطیہ کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال ایک خالی خولی یا محض خیالی شاعر نہیں بلکہ وہ تو اپنے آپ کو شاعر کلیم ہی نہیں کرتا: خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری وگرنہ شعر مِرا کیا ہے؟ شاعری کیا ہے؟ ایک طائرانہ سی نظر بھی ڈالیں تو اس شاعرِ خوش خیال و خوش کلام و خوش اِمکان و خوش ادا و خوش طبع کی اتنی جہتیں، اتنی حیثیتیں، اتنی اہمیتیں دکھائی دیتی ہیں کہ بعض اوقات مجھے تو ’ہمہ جہت‘ جیسی روایتی ترکیب بھی ان کے سامنے بونی لگنے لگتی ہے۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ ’اقبال دیر ہی سے آتا ہے‘ والا جملہ بچپن میں ان سے حقیقی طور پر سرزد ہوا یا نہیں لیکن اتنا یقین ہے کہ ’اقبال‘ جب آتا ہے تو نہ صرف آتا ہے بلکہ آتا ہی چلا جاتا ہے اور علم و ادب کی فضاؤں کو دیر تک مہکاتا، چمکاتا اور جگمگاتا ہے۔ اس کے قومی شاعر، حکیم الامت، شاعرِ مشرق،مفکرِ پاکستان، دانائے راز (ہمارے حکیم جی کے بقول تو وہ اب تک اپنی ناگزیریت کے سبب دانائے راز کے ساتھ ساتھ ’دانائے روز‘ بھی ہے) والی معتبر ترین حیثیات کو تو ہم نے بغیر سمجھے، بغیر جانے، بغیر برتے، روایت و عقیدت کی کٹھالی میں ڈال کر اتنا باریک پِیسا کہ ان سے استفادہ کرنا تو ایک طرف، نئی نسل کے لیے ان کی معنوی شناخت بھی ممکن نہ رہی۔ اقبال کی شخصیت کے تو اتنے پہلو ہیں کہ شاید اس عجلت میں شمار بھی ممکن نہ رہے۔ اگر ایک شاگرد کے طور پر بھی ان کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ہزار جان سے صدقے واری جانے کو دل چاہتا ہے، شاگرد تو شاگرد خود استاد اِس شاگرد کی عقیدت پہ قربان ہو ہو گئے۔ مولوی میر حسن نے ابتدائی سالوں میں ان کے اندر علم و ادب اور فارسی و عربی کی جو جوت جگائی، اقبال نے اس نوازش کو استاد سمیت ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا۔ گورنمنٹ کالج میں پروفیسر آرنلڈ سے محبت ’ولایت‘ تک سفر کرتی ہے۔ ہو سکے تو ’بانگِ درا‘ میں شامل پروفیسر آرنلڈ پر لکھی نظم ’نالۂ فراق‘ دیکھیے گا: اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائیِ صحرائے علم تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم جرمنی کی ایما ویگے ناست سے خلوص و اعتماد کا جو رشتہ عمر بھر برقرار رہا، وہ تو مثالوں کی حدود سے بھی ماورا ہے۔ اسی طرح غالب کے معتقد، سرسید کے معترف اور حالی کے مقلد تو وہ تا دمِ زیست رہے۔ شاعری میں نواب میرزا داغ نے ان کے تیور بھانپ کر اگرچہ ابتدا ہی میں ان کو پختہ کاری کی سند جاری کر دی لیکن ان کے لیے آنکھوں میںعمر بھر ممنونیت کی نمی برقرار رہی۔ ان کی وفات پر کیا جاندار و شاندار مرثیہ لکھا: ہُو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟ اُٹھ گیا ناوک فگن ، مارے کا دل پر تیر کون؟ ان جیسا عاشقِ رسولﷺ تو شایداسلامی تاریخ میں ڈھونڈنا مشکل ہو کہ جو ہمارے ہر مسئلے کا حل کامل اِتباعِ رسول ﷺ میں تلاش کرتے ہیں۔اسلامی تاریخ سے ان کی دلچسپی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ قرونِ اُولیٰ کے مشاہیر ہوں یا برِ صغیر میں اسلام کے پرچارک، ان سب کی مساعیِ جمیلہ اقبال کے دل پر رقم رہیں۔ پوری اسلامی، ادبی، تہذیبی تاریخ ان کے کلام سے چھلکی پڑتی ہے۔ زندگی بھر جن احباب سے دوستی رہی، وہ شیخ عبدالقادر ہوں یا عطیہ فیضی، سر شہاب الدین ہوں یاراس مسعود، ان سب کو اقبا ل کی تصویر دل کے آئینے ہی میں نظر آتی رہی۔ برِصغیر کی سیاست کی طرف آنکھ اٹھائیں تو ہندوستان بھر کے کرّوفر بردارسیاست دان، ہر نازک معاملے میں اسی تہمد و بنیان پوش اور حقہ برادر درویش کی جانب دیکھتے ہیں۔ پھر جہاں تک ادب کا معاملہ ہے، ان کی نگاہ کے عدسے اُردو کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی ، انگریزی، جرمن، ہندی، پنجابی کے مظاہیر پر بھی برابر فِٹ ہیں۔ وہ گوئٹے ہو، شیکسپئر ہو، حافظ ہو، نظیری ہو، عرفی ہو کہ صائب، بھرتری ہری ہو، شاہ حسین ہو کہ غالب ، استفاد اور اعتقاد کا سلسلہ محبت اور مروت کے ساتھ جاری رہا۔ جلال الدین رومی تو ہمیشہ مرشد کے درجے پہ فائز رہے۔ اقبال کی زندگی کا پہلا شعر آج بھی حمد کے نہایت اونچے سنگھاسن پر متمکن ہے، شاید اسی عجز کی بنا پر ہی کریم و رحیم نے ان پر عنایات کی انتہا کر دی: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مِرے عرقِ انفعال کے یہ بات دلائل سے ثابت جا سکتی ہے کہ ان جیسا ماہرِ نفسیات کہ جو برِصغیر کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی قوموں کی سائیکی سے بہ خوبی واقف ہے۔ اسی طرح وہ ایک ایسا فلسفہ داں، سوشیالوجسٹ، ماہرِ تعلیم، حامیِ نسواں، مفسرِ قرآن ہے کہ ان جیسا کوئی دوسرا ایشیا کیا؟ امتِ مسلمہ میں ڈھونڈے سے نہ ملے گا لیکن جس چیز کا احساس ان کے سینے میں مرتے دم تک ترازو رہا، وہ تھی برِ صغیر کے مسلمانوں کی اسلام کی اصل روح سے نا آشنائی، بے داری سے بے زاری… وہ جانتے تھے کہ ان کے اندر شب بھر میں مسجد کھڑی کر دینے کا بے مثل جذبہ موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں اِن کے برسوں میں حقیقی نمازی نہ بن سکنے کی عَلّت کی بھی خبر تھی۔ وہ ہمارے ہاں ہر ہر شعبے میں عقابوں کے نشیمن پہ وراثت و جہالت کے بل بوتے پر مسلط، روایتی زاغ و زغن کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ امت کی زنگ آلود نگاہ اور جمود پرور رویوں سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہی فرماتے تھے: ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے آج اس مردِ مسلماں کی متخیلہ ریاست پہ سیاست کا جو چلن ہے وہ افسوس ناک ہی نہیں ناقابلِ فہم بھی ہے۔ لوگوں کے نزدیک یہ ریاست اب ریاست کی پیروڈی بن کے رہ گئی ہے۔ اسی لیے مدت سے ان کے کلام کی موجودہ صورتِ حال کے مطابق اس طرح کی تحریفات سامنے آ رہی ہیں: اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو ’سزا‘ دو کاخِ امرا کے در و دیوار ’سجا‘ دو