ڈاکٹر فاسٹس کی قدیم المیہ جرمن لوک داستانوں میں کرہ ارض کی پیدائش کی بنیادی وجہ آسمانوں پر غول در غول فرشتوں کی ناختم ہونے والی بے لوث عبادت سے خدا کی اکتاہٹ بیان کی گئی ہے۔ خدا نے بھی تو ان فرشتوں کو ہر نعمت سے نواز رکھا تھا۔ چنانچہ فرشتوں کی ابدی حمد و ثنا کی یکسانیت سے اکتا کر خدا نے ایک کھیل کھیلنے کا سوچا۔ حکم دیا کہ کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میںبے مقصد گھومنے والے آگ کے گولے کو ٹھنڈا کر کے اس کے اوپر ایک مخلوق آبادکی جائے کہ جسے مصائب اورآزمائشوں سے دوچارکر کے دیکھا جائے کہ اس سب کے باوجود وہ اپنے خالق کی حمد و ثنا کرتی ہے یا نہیں۔ چنانچہ انسان کو خلق کیا گیا۔ نئی مخلوق نے زمین پر برپا افراتفری میں خود کو پایا تو سوچا کہ اس کی بقاء چھین کر جینے میںہے۔ تاہم بقاء کی اس کشمکش میں گناہوں کا ارتکاب اور اس کے نتیجے میں خدا کی ناراضگی لازم تھے۔ اسی احساس سے مغلوب ہو کر انسان نے سوچا کہ کیا اَن دیکھے خالق کی ناراضگی دور کرنے کے لئے اسے نا صرف اس کی حمد و ثنا بلکہ زمین پر اس کی عملداری بھی قائم کرنی چاہیئے۔کچھ ہی عرصے میں خالق اپنی اس تخلیق سے اس قدرلطف اندوز ہوا کہ اس نے کرہ ارض کے سورج کو کسی دوسرے سورج سے ٹکراتے ہوئے فرشتوں سے کہا کہ کیوں نایہی کھیل بار بار کھیلا جائے۔ ہزاروں سال قبل ہمارے شکاری آبائو اجداد نے نامساعدزمینی اور سماوی آفات کے مقابل بقا ء کی طویل جنگ لڑی۔ہمارے اجداد نے سخت موسموں سے لڑ کر جینا سیکھا،درندوںا ور موذی حشرات الارض کو زیر کیا ۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو طاقتور ہی جیتتا ہے۔ چنانچہ طاقتوروں نے کمزوروں کو لاٹھی سے ہانکا اور بہتے پانیوں اور اناج اگلنے والی زمینوں کو قبضے میںلیا۔اس بیچ گناہ کا احساس مگرانسان کو مسلسل ستاتا رہا۔چنانچہ اَن دیکھی آسمانی طاقتوںکے غیض وغضب سے پناہ کی خاطر وحشی قبائل نے اپنے اپنے دیوتا گھڑ ے کہ جن کی چوکھٹوں پرارضی وسماوی مصائب وافتاد سے عافیت کی خاطروہ خون کے نذرانے گزارتے۔ اب ہزاروں سال سے قوموں کی شکل میں وہی قبائل اپنے دیوتائوں اور معبودوں کی خوشنودی ،تو دوسری طرف زمین کے اندر اور اس کے سینے پر بکھرے وسائل پر قبضہ جمانے کی خاطرفساد برپا کئے ہوئے ہیں۔ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ ہی وہ اصول ہے کہ جو صدیوں سے جاری اس ابدی کشمکش کے پیچھے متعین وکارفرما ہے۔مذاہب، رنگ ونسل اور قدرتی وسائل کی خاطر لڑی جانے والی جنگ وجدل سے انسانی تاریخ لبریز ہے۔ شاید ہی کسی قوم کا دامن طاقت کے بل بوتے پراپنے سے کمزوروں پر اپنے عقائد مسلط کئے جانے،یا ان کے وسائل پر غاصبانہ قبضے کے لئے برپا کی گئی قتل و غارت سے پاک ہو۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کے مدارج پھلانگتی نسلِ انسانی اخلاقیات کے آفاقی اصول بھی طے کرتی چلی گئی۔خدا نے ہزاروں پیغمبر اتارے، فلسفی گزرے، عظیم تہذیبیںوجود میں آئیں اور مٹ گئیں۔تما م تر قوانین و ضوابط کے باوجود آج بھی مگر معاملات اخلاقیات کی بجائے اندھی طاقت کے بل بوتے پر ہی طے پاتے ہیں۔گو طاقت کے پیمانے بدل چکے،جنگو ں کی نوعیت اور مہلک ہتھیاروں سے متوقع تباہی کی شدت ناقابلِ بیان ہو چکی، بقاء کا آفاقی اصول مگر وہی ہے کہ جو ہمارے وحشی اجداد نے غاروں میں طے کیا تھا۔ ازکارِ رفتہ سپاہی کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں چند افریقی ممالک کے گھبراہٹ طاری کر دینے والے ویرانوں اور تاریک جنگلوں میںافلاس اور لرزا دینے والے قتل و غارت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سوڈان اور ایتھوپیا کے بیچ لڑی جانے والی طویل جنگ کے نتیجے میں ان کی سرحد وںپر بچھی سراسیمگی طاری کر دینے والی بے ترتیب بارودی سرنگوں کے اندر سے گزرنے کا موقع ملا کہ آئے روز جہاں صرف جانور ہی نہیں انسان بھی مرتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم شمالی سوڈان اور جنوب میں آباد عیسائی قبیلوں کے مابین سالوں پر محیط قتل و غارت دیکھنے کو ملی کہ جس کا محرک مذہب کے علاوہ جنوب میں پھیلے تیل کے وسیع ذخائر پر قبضہ بھی تھا۔ درندگی کی جو داستانیں مگر لائبیریا اور اس خطّے کے دیگر تباہ حال ممالک کے الیٹ گروہوںنے ساحلوں پر بکھری دولت پر تسلط جمانے کیلئے لکھیں، ہمارے الفاظ ان کی منظر کشی سے قاصر ہیں۔ہم جیسے کہ نسبتاََ نام نہاد مہذب قوموں سے امن دستوں کے لئے چنے گئے افراد تاریک برّاعظم میں بسنے والوںکے ذہنی اور مادی افلاس پرتاسف کیا کرتے کہ قدرت نے ان نیم وحشیوں کو اس قدر خزانوں سے نواز رکھا ہے تو یہ حکمت اور انصاف سے کام کیوں نہیں لیتے؟ یہی سوال مگر ترقی یافتہ معاشروں سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔مقدس سرزمین پربسنے والوںسے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ جہاں ہزاروںپیغمبر اتارے گئے مگرخداکی چنیدہ قوم کے لوگوں نے بے کس اور لاچارفلسطینیوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران کروڑوں کی تعداد میں بھارتی سوشل میڈیا اکائونٹس نیتن یاہو کی حمایت میں سرگرم ہیں۔ صدیوں پرانے ویدوں اورقدیم کتابوں میں لکھے اپنیشندوں سے پھوٹنے والی حکمت اور دانائی پر بسرکرنے والے اہنسا کے ماننے والے، مودی کے زعفرانی بھگتوں کے ہاتھوں یرغمال کیسے ہوگئے؟کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ہندوتوا کے بانی اور مودی کے آباء توہٹلر کو اپنا رول ماڈل قرار دیتے رہے مگر نیتن یاہو کے آبا و اجدادعشروں پہلے اسی ہٹلر کے مظالم سے بھاگ کر فلسطین پہنچے تھے؟ آج انہی یہودیوں کی اولادیں فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہیں تو ہندوتوا کے پیروکاروں کی اکثریت مودی کی قیادت میں نیتن یاہو کے مظالم کی پشت پر کھڑی ہے۔ہٹلر کے مداحوں اور اسی کے مظالم کا شکار بننے والوں کی اولادیںآج مسلم دشمنی میں ایک ہیں۔ نہتے کشمیری برسوں سے چیخ رہے ہیں، تشدد نہیں، قید نہیں،ہمیں جان سے مارو۔غزہ کی پٹی میں نیتن یاہو اب ہسپتالوں پر بے رحم بمباری کے ذریعے فلسطینی بچوں کو مار رہا ہے۔ دنیا دونوں کی پشت پر کھڑی ہے۔عشروں پہلے ولی عہد شاہزادہ فہد نے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے سمیت امن منصوبہ عرب لیگ کے سامنے رکھا توصرف عراق، شام، لیبیا اور جنوبی یمن نے اُس کی مخالفت کی تھی۔ آج چاروں ملک کھنڈر بنے پڑے ہیں۔ اب صہیونی کہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مسلم دشمنی میں مودی اور نیتن یاہو ایک ہیں۔پشت پر دونوں کے’ اندھی عالمی طاقت‘ کھڑی ہے؟ خدا کی مخلوق نے اس کی دھرتی ظلم سے بھر دی ہے۔کرہ ارض نا انصافی سے لبریز ہے۔ کیا اربوں سال سے کھیلا جانے والا کھیل اس بار بگڑ گیا ہے؟کیا کرہ ارض کے ایک بار پھر تہہ در تہہ برف اوڑھنے کا وقت آن پہنچا ہے؟ سورج سے ٹکرانے کے بعد ناجانے زند گی د وبارہ کرہ ارض پر کب پھوٹے گی؟ کھیل نا جانے کتنی بار کھیلا جائے گا؟