سروجنی نائیڈو جو شاعرہ بھی تھیں اور سماجی کارکن بھی نے ،رتی کو ’’بمبئی کا گلاب‘‘ یعنی Rose of Bombay قرار دیا تھا۔ رتی ایک کروڑ پتی سر ڈنشا پٹیٹ اور لیڈی دینا بائی کی پہلوٹھی کی اولاد اور اکلوتی بیٹی تھیں۔ ڈنشا پٹیٹ اتنے امیر تھے کہ ہر سال گرمیوں میں فرانس اور انگلستان جایا کرتے تھے۔ رتی کو اپنی ماں کی طرف سے منفرد اور شاہانہ ذوقِ زندگی ملا تھا۔ رتی کو کتب بینی، بہترین ملبوسات اور پالتو جانوروں سے محبت تھی۔ وہ کسی بھی انسان یا جانور کو اذیت میں نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ چودہ سال کی عمر تک ولیم تھیکرے کے ناول، آسکر وائلڈ کی کلاسک کہانیاں جان ملٹن، ٹینی سن جیسے مصنفوں کو پڑھ لیا تھا۔ 1895میں محمد علی جناح 21 برس کی عمر میں بیرسٹر بن کر کراچی لوٹے تو باپ کے کاروباری حالت خراب تھے۔ لہذا محمد علی نے بہن بھائیوں کی کفالت کے لیے بمبئی جانے کا ارادہ کیا۔ 1898میں جب جناح صاحب قانون کی دنیا میں اپنا نام بنا چکے تھے تو ڈنشا پٹیٹ سے بمبئی ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں ملاقات ہوئی۔کہتے ہیں جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ یہ بات جناح صاحب اور بیگم جناح پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ رتی کو اپنے باپ کے یہ بیرسٹر دوست بہت اچھے لگے۔ 1916 میں موسمِ گرما کی چھٹیوں میں جناح صاحب دار جلنگ گئے تو پٹیٹ گھرانہ بھی وہیں موجود تھا۔جناح صاحب نے جب رتی کے دل میں بھی آزادی کی تڑپ دیکھی تو مسحور ہو گئے۔ رتی شاعرانہ فطرت کی مالک تھیں۔ وہ محبت کی طاقت، پھولوں کی نازکی، تتلیوں کی نوخیزی اور چاندنی کی کرنوں میں کھو جایا کرتی تھیں۔ جناح صاحب ایک پریکٹیکل آدمی تھے مگر حسین اور مضبوط ارادوں کی مالک یہ لڑکی ان کے خیالات میں آن بیٹھی۔ خوب صورت مسکراہٹ والی یہ نازک اندام اور خوش لباس لڑکی نے جناح صاحب کو بتا دیا کہ ان کے دل میں بستے ہیں۔ دار جلنگ میں ہی ایک روز چائے کے دوران جناح صاحب نے ڈنشا پٹیٹ سے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئے اور دو ٹوک انکار کر دیا۔ رتی جناح صاحب کو تمام عمر پیار سے ’’جے‘‘ کہا کرتی تھیں۔ 1917 میں تاج ہوٹل میں بہت دھڑلے اور بے تکلفی سے اعلان کیا کہ ’’جے اور میں شادی کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ رتی کو جناح صاحب نے اسلام پر کتابیں بھجوائیں۔ ذہین رتی نے مطالعے کے بعد پوری سمجھ بوجھ سے مشہور مذہبی عالم نذیر احمد خجندی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ جناح صاحب کی خواہش پر اسلامی نام مریم رکھا گیا۔ 19 اپریل 1918 کو برصغیر کی ایک حیران کن شادی ہوئی جو اخبارات کے لیے ایک گرما گرم خبر تھی۔ ڈنشا نے جناح صاحب پر اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کیا۔ کٹہرے میں کھڑی مریم (رتی) نے کہا: ’’مائی لارڈ جناح نے مجھے اغوا نہیں کیا بلکہ میں نے انہیں اغوا کیا ہے‘‘ پورے برصغیر میں اس شادی سے طوفان بپا ہو گیا۔ رتی جناح نے اپنے عمدہ جمالیاتی ذوق کے مطابق انہوں نے گھر کو زندگی سے بھر دیا۔ وہ ایک منفرد انداز والا سحر انگیز مکان بن گیا۔ رتی گھر کے علاوہ جناح صاحب کے لباس اور دیگر امور کا بھی خیال رکھتیں۔ ہر شام رتی قائدِ اعظم کو لینے چیمبر جایا کرتیں۔ یہ مسلم کمیونٹی کا پہلا جوڑا تھا جو ایک دوجے سے محبت کے اظہار میں شوہر اور بیوی کی برابری کا مظاہر کرتا تھا۔ شادی کے اگلے سال ہی قائدِ اعظم کی رولٹ بل کی مخالفت میں اتنے مصروف ہو گئے کہ رتی کی سالگرہ پر آنے کا موقع ہی نہ ملا اور یہ رتی کی پہلی سالگرہ تھی جو خاموشی سے گزر گئی۔ جناح صاحب اور بیگم جناح کو جب بھی وقت ملتا وہ دونوں گھومتے پھرتے اور تھیٹر بھی دیکھنے جاتے۔ رتی گرمجوش، نفیس نوجوان عورت اپنے باوقار شوہر کے ساتھ مسحور کن افسانوی کردار دکھائی دیتیں۔ رتی بھڑکیلے رنگوں اور کام والے لباس سے گریز کرتیں۔ رتی جب اْمید سے تھیں تو جناح صاحب کے لیے سیاسی طور پر یہ انتہائی ہنگامہ خیز دور تھا۔ ٹاؤن ہال کے احتجاج کے دو ہفتوں کے اندر انہیں دلی روانہ ہوتا تھا کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاس میں رتی کی نازک حالت کو مدِ نظر انہوں نے فیصلہ کیا کہ رتی بمبئی اپنے گھر میں رہے اور وہ خود بمبئی اور دلی کے چکر لگاتے رہیں۔ یوں جناح صاحب پوری طرح دن رات سیاسی مصروفیات میں کھو گئے۔ اس دوران رتی اپنے اندر نشو و نما پانے والی نئی زندگی کے باعث جناح صاحب پر اپنے احساسات ظاہر نہیں کرتی تھیں حتیٰ کہ سروجنی سے بھی اپنے جذبات چھپانے لگی تھیں۔ رتی رفتہ رفتہ سیاسی وجوہات کی بنا ہر اپنی ذاتی خوشیوں کو پسِ پْشت ڈالنے کی عادی ہو چکی تھیں۔ جناح صبح رتی سے پہلے بیدار ہو کر عدالت چلے جاتے۔ شام کو رتی جب انہیں چیمبر سے لے آتی تو وہ کھانا ساتھ تناول کرتے اور پھر اپنی لائبریری میں مقدمات کی تیاری کے لیے چلے جاتے۔ 28مارچ کو جناح صاحب نے اپنا استعفیٰ وائسرائے کو بھیج دیا اور رولیٹ ایکٹ کے خلاف عوامی احتجاج کا حصہ بن گئے جس کی قیادت گاندھی صاحب کر رہے تھے۔ احتجاج کرنے والے جناح سے حکومت خوف زہ ہونے لگی۔جناح صاحب نے انگریزوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ حکومت اس حد تک فکر مند ہوئی کہ گاندھی اور جناح کو ملک بدر کر کے برما بھیجنے کا ارادہ کیا تو اچانک گاندھی نے تحریک روک دی۔ اس ساری گہما گہمی میں بچے کی پیدائش تو جیسے نظر انداز ہی ہو کر رہ گئی جو کہ صرف تین ماہ میں متوقع تھی۔ شادی کے بعد سروجنی سے بھی کم ملاقات ہوتی تھی۔رتی اور سروجنی کی ملاقات ان کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر ہوئی۔ چھے سال بعد رتی ایک بار پھر سے بحری جہاز میں سوال ہو کر انگلینڈ جا رہی تھیں۔ رتی کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ سفر سے محفوظ ہو سکتیں۔ (جاری ہے)