حکومت کا چل چلائو، سیاسی منڈی میں تیزی کا رحجان، انتخابات کے بارے شکوک و شبہات،  سازندوں کا کمال سائفر کا بے وقت راگ،  نواز لیگ انتخابی میدان میں "کھیلن کو مانگے چاند" پیپلز پارٹی کا اصرار تمام جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں۔ نگراں آئیں گے یا نگہبان؟ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا عوام ڈیفالٹ ہو گئی۔ آٹا ایک سو ستر، چینی 165، گھی 600 سو سات سو تک بجلی کے بلوں میں پھر اضافہ، ریڈیو ناپید، ٹیکس عائد غریب ہلکان ، عوام نے آسمان کی طرف منہ اٹھا لئے۔ سیاسی جماعتیں حال مست کھال مست، کسی کو کوئی سرو کار نہیں۔۔ نواز لیگ اور اتحادی جماعتیں اس شعر کی غماز رہیں۔۔۔ "پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں ،اب کے برس بھی اِس کے سوا کچھ نہیں کیا۔ حکومت اب رخصت ہونے کو ہے۔الوداعی رسمیں پوری ہو رہی ہیں۔آئندہ ماہ  یعنی اگست  کی آٹھ اور نو تاریخ کی درمیانی شب کو  حکومت تحلیل کی جا سکتی ہے۔ ان پندرہ مہینوں کے اقتدار میں اتحادی جماعتوں کی کار کردگی کیا رہی؟ عوام الناس کے لئے کتنے مستحسن فیصلے ہوئے ، خود کیا کچھ سمیٹا یہ تو اب آنے والا وقت بتائے گا۔تاہم حصہ بقدر جثہ سب ہی نے کچھ نہ کچھ اپنی جیبوں میں ڈالا۔ روز افزوں بڑھتی مہنگائی نے غریب عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا، عوام روٹی کو ترسنے لگے، آٹا ، چینی گھی کی قیمتوں کو پر لگ گئے، حکومتی اتحاد بوریا بستر باندھنے میں مصروف ہے ،  حال مست، کھال مست حکومتی اتحاد کو غریبوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔مال بنائو اور نکلو کی پالیسی پر عملدرآمد ہو رہا۔ غریب کے بچے بھوکے سوتے رہے نمائندگان اسمبلیاں و سینیٹ مراعات کے بل پاس کرواتے رہے۔۔جس روز عوام باہر نکل آئے تو راستہ شاید ہی کسی کو ملے۔ ادھر منصوبہ سازوں نے بھی پوری طرح جمع تفریق کر رکھی ہے۔ نواز لیگ کے سر پر اقتدار کا ہما  ایک بار پھر بٹھایا جا سکتا ہے۔ جبکہ راندہ درگاہ قرار دی گئی جماعت کو بھی اتنا حصہ مل سکتا ہے کہ اشک شوئی ہو سکے اور چاہنے والوں کی منت و مرادوں کا بھرم  بھی رہ سکے۔ خیبر پختونخوا، سندھ ، اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں مختار خاص کے درجے پر فائز ہوں گی مرکز میں یہ ہی جماعتیں  "شش" کی آواز  کا سگنل ملنے پر  "اقتدار کے ہما"  کو اڑا نے پر قادر بھی ہوں گی۔ ادھر سائفر کا  بے وقت ساز ایک بار پھر چھیڑ دیا گیا ہے۔یہ سازندوں کا کمال ہے کہ راگ بے سرا ہوجانے کے بعد پھر سے گایا جا رہا ہے۔ اگر چہ سر ، تال اور لے میں کوئی جان نہیں۔ میاں نواز شریف بھی واپسی کے لئے تیار ہیں۔تاہم بقول شاعر۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔ گو مگو کی سی کیفیت ہے۔۔"جاواں کہ نہ جاواں" موجودہ حالات میں جیل کے علاوہ  کسی فقیدالمثال استقبال کی  صورت نظر نہیں آرہی  اس لئے  پروگرام میں تاخیر ہو رہی ہے۔ حکومت کو مسائل کے حل سے فرار اور روز افزوں مہنگائی نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہ عوامل الیکشن نتائج میں کلیدی کردار ادا کریں گے ۔عوام کو متنفرہیں۔۔۔اگرچہ " اک واری فیر شیر" کا نعرہ بھی بھاڑے پر لائے جانے والے افراد سے  لگوایا جا رہا ہے مریم نواز متحرک تو رہیں لیکن وہ اپنی جارحانہ  گفتار، اور آئے دن   آڈیو ویڈیوز کے  اخلاق باختہ کھیل کے باعث  ایک طرف  نواز لیگ کے سنجیدہ حلقوں میں اضطراب پھیلا نے کا سبب بنتی رہیں اور دوسری جانب خود اپنی شخصیت کو بحیثیت ایک  رہنما کے منفی انداز میں زیر بحث لانے کا سبب بھی بنیں۔ یاد رہے عوام اپنے رہبر کو ایک رول ماڈل کی صورت دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی فکری اساس   نظریات  اور عوامی مسائل کے قابل قبول حل کی وجہ سے  عوام میں مقبول ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا اولین کام عوامی مسائل کاحل، صحت ، تعلیم اور دیگر سہولیات کی بلا تفریق فراہمی، اشیا صرف کی سستی فراوانی ہوتاہے۔ یہ انداز سیاست ہوگا تو حریف سیاسی جماعتیں بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوں گی۔  سیاسی جماعتوں کا عقیدہ اگر  اٹھا پٹخ اور خریدو فروخت پر رہے گا تو عوام ایسی سیاسی جماعتوں کو مسترد کر دیں گے۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ رہا کہ کوئی جیالا بنا دیا گیا کوئی ٹائیگر اور کوئی متوالا۔نہیں بن سکا تو ایک اچھا سیاسی کارکن نہ بن سکا۔اس سوچ اور مائنڈ سیٹ نے سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ نواز لیگ یہ حصہ سمیٹنے میں سب سے آگے رہی۔ اس پر طرہ یہ کہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے آخری سوا سال میں نواز لیگ کے غلط سیاسی فیصلوں نے پارٹی کو نقصان پہنچایا یہ نواز لیگ بھی بخوبی جانتی ہے۔ نواز لیگ کے سامنے اب انتہائی سخت امتحان ہے۔ مہنگائی کے جن کو کس طرح قابو کیا جائے گا۔ بھوک سے بلکتے عوام کے لئے کیا اقدامات ہوں گے، بجلی گیس کی عدم دستیابی کے باوجود ہوشربا بلوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے ،  ان تمام عوامی مسائل کو  سیاست کے راست اصولوں اور پوری سچائی کے ساتھ حل نہ کیا  گیا تو  جو نقصان  اب تک ہو چکا ہے  اس سے زیادہ کا امکان ہے۔ اندریں حالات وقت کا تقاضہ ہے کہ منتقمانہ سیاست سے دوری اختیار کرتے ہوئے ، سیاست میں وضع داری، تحمل اور برداشت جیسی خصوصیات سے دل جیتا جا ئے"صبح کا بھولا شام گھر آجائے تو بھولا نہیں کہتے"  قائدین کو سوچنا ہو گا۔ ٭٭٭٭٭