پوچھا’’کتنا آیا؟‘‘دوست نے جواب دیا ’’گیارہ ہزار !‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا’’اور پچھلے مہینے ؟‘‘ ’’پندرہ ہزارآیا تھا‘ ‘میں چونک گیا،میرا چونکنا بنتا تھا کیوں کہ میرا دوست واپڈا یا بجلی کی کسی تقسیم کار کمپنی کا ملازم نہیں، وہ کسی منصف کی مسند پر نہیں بیٹھتا کہ ٹشو پیپر سے لے کر باغیچے کی صفائی تک سرکاردے وہ میری طرح ایک سڑک چھاپ صحافی ہے اور اس وقت کو کو ستا ہے جب اس نے روزی روزگار کے لئے میڈیا کا رخ کیا تھا، اس کا کوسنا بجا بھی ہے وہ ایک ایسے نیوز چینل میں ملازم ہے جہاں تنخواہ سرپرائز کی طر ح دی جاتی ہے میں نے پوچھا بھائی !یہ کیا واپڈا کے لائن مین سے خصوصی مراسم کے ثمرات ہیں یاکوئی گیدٖڑ سنگھی ہے ۔۔۔آپ پہلے خوش قسمت پاکستانی ہو، جس کا بجلی کا بل کم ہوا ہے ، میرا دوست ٹھنڈی سانس بھرکر کہنے لگا ’’ گھر میں تین پنکھے کچھ بلب ایک ریفریجریٹر اور واشنگ مشین ہے ،طے کر لیا کہ میٹر پر تین سو یونٹس نہیں ہونے دینے کہ اس کے بعد بجلی کا یونٹ مزید مہنگا ہوجاتا ہے اس کے لئے میں نے یہ کیا کہ روز پیک آورز میں ریفریجریٹر بند کر دیتا، دو بیڈروم ہیں، ایک والدہ اوردوسرامیرے استعمال میں ہے، بچے ڈرائینگ روم میں سوتے تھے ایک پنکھا بند رکھنے کے لئے میں نے اپنی پرائیویسی ختم کردی، ایک بیٹے سے کہا کہ وہ میرے بیڈروم میں میٹرس ڈال لیا کرے اور دوسرے کودادی کے کمرے میں سلانے لگا،پھر لنڈے بازار سے گہرے رنگ کی جرسی کے کپڑے کی دو تین ٹی شرٹس لے لیں، انہیں استری کریں نہ کریںپتہ نہیں چلتااور جینز کون دھوتا اور استری کرتا ہے ،بیگم سے کہا کہ واشنگ مشین بھی کم لگایا کرے، میںنے بیٹے کی ڈیوٹی لگا دی وہ روز میٹر چیک کرے ،تیس جولائی تک 290یونٹس ہوگئے تھے مہینہ 31کا تھا میٹر ریڈر مہینے کی آخری تاریخ کو میڑچیک کرنے آتا ہے، بس یہ دو دن بڑے مشکل تھے ان دو دنوں میں کپڑے پریس کرنے پر مکمل پابندی لگائی، گھر میں کہیں سے کھجور کے پتے والا پنکھا مل گیا، کمرے کا پنکھا بھی بند کردیا اور اس پنکھے سے گزارہ کیا31کو میٹر چیک ہوا تو296یونٹس تھے شکر ہے تین سو نہیں ہوئے تب کہیں جا کر چار ہزار روپے بچاپایالیکن یہ بھی بہت زیادہ ہے میرے مہینے بھر کا سودا بائیس تیئس ہزار روپے کا آتا ہے اب بجلی گیس ، پانی اور انٹرنیٹ کابل ہی سترہ اٹھارہ ہزار بن جاتا ہے پتہ نہیں گاڑی کیسے چلے گی اس سوال کا جواب آج ہر پاکستانی کھوجتا پھر رہا ہے۔ دفتر کا ڈرائیور پریشان لگ رہا تھا پوچھا خیریت ہے ؟ کہنے لگا سر!اس بار تنخواہ سے دو سو روپے بچے ہیں اب ان کاکیا کروں ؟اس کا تو زہر بھی نہیں ملتا کہ بندہ سارے جنجالوں سے آزاد ہوجائے،بتانے لگا پچیس ہزار روپے تنخواہ ہے اور24ہزار400روپے بجلی کا اور 400روپے گیس کا بل آیا ہے اس مہینے پھرکسی سے قرضہ لوںگا کہنے لگا سر !میرے گھر میں مہینے میں صرف ایک دن مرغی پکتی تھی وہ بھی جس دن تنخواہ ملے اب وہ آدھا کلو مرغی بھی لینے جوگا نہیں رہا گوشت کی شکل تو بڑی عید پر ہی دیکھتے ہیں جب کوئی بھیج دے ،یقین کریں ان تین سالوں میں صرف ایک جوڑا کپڑ ے کا بنایا ہے وہ بھی میری بیٹی نے ٹیوشن پڑھا پڑھا کرکچھ پیسے جمع کئے اور بتائے بغیرلے آئی کہ ابا اسے سلوالے ،سر! سلائی کے بھی درزی نو سو روپے مانگ رہا تھا میں خاموشی سے واپس آگیابیٹی سمجھ گئی اس کو ٹیوشن ملی تو میرے ہاتھ پر ہزار روپے رکھ دیئے اسکی آوازرندھ گئی کہنے لگا سر! یہ جو وزیر اور بڑے بڑے افسر ہیں،انہیں پتہ کہ ہم عوام کس حال میں ہیں؟میں تو ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں بددعائیں دیتا ہوں۔ یہ دو کہا نیاں لوئر مڈل کلاس کے صحافی اور لوئر کلاس کے ڈرائیور کی نہیں تقریبًٍٍا اسی فیصد پاکستانیوں کی ہیں مہنگائی کی ڈائن نے کوئی گھر چھوڑا ہے ؟لوگوں کی قوت خرید کم نہیں ختم ہو کر رہ گئی ہے محنت کش طبقے کے گھر چولہا جلے تو ننگ دھڑنگ بچے خوشی سے ناچنے لگتے ہیں لوگ سسک سسک کر جی رہے ہیں،اپنی ضروریات پرکٹ لگا رہے ہیں لیکن اس مفلوک الحال لوگوں کو نچوڑ کر وصول کئے جانے والے ٹیکسوں سے لمبی لمبی سرکاری کاریں،دو،دو کنال کی کوٹھیاں، مراعات کے نام پر مفت بجلی گیس اور پٹرول وصول کرنے والی بے حس اشرافیہ کیا کررہی ہے، وطن پر مشکل وقت ہے قوم قربانیاں دے رہی ہے تو ان قربانیوں میں اس اشرافیہ کا کتنا حصہ ہے؟ملکی خزانے پر جونک کی چمٹی یہ بے حس اشرافیہ اتنی سنگ دل سفاک اور بے حس ہے کہ ان دنوں جب لوگ بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں،مہنگائی کی دہایاں دے کر سڑکوں پر ماتم کررہے ہیں اوردس دس لاکھ روپے تنخواہیں ،سرکاری گاڑیاں،پانچ پانچ سو روپے مفت پٹرول ، بیمار ہوں یا نہ ہوں ہزاروں روپے کا میڈیکل الاؤنس ہر ماہ وصولنے والے بے حس گھر بنانے کے لئے کروڑوں روپے کے بلاسود قرضے لے رہے ہیں ! ایسے موقعوں پر سیالکوٹ کے خواجہ آصف کا پارلیمان میںادا کیا گیا جملہ بے اختیارزباں پر آجاتا ہے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے‘‘ اور حیرت تو ان نگراں حکومت کے نام پر آنے والے ’’نظام سقوں‘‘ پر ہے کہ انہوںنے بھی چوں نہیں کی اور خاموشی سے مستحقین کے لئے سود کی لعنت سے پاک حلال قرضوں کی منظوری دے دی جو بارہ برسوں میں اس احتیاط سے وصول کئے جائیںگے کہ ان کی سفید پوشی کا بھرم نہ عامر میر کہتے ہیں پہلے بھی ایسا ہوتا تھاسوال یہ ہے کہ اب کیوں ہورہا ہے ؟ شائد ان ہی کے لئے کوئی اعتزاز احسن وکلاء تحریک میں نظم پڑھتے تھے ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی۔۔۔‘‘ سچ میں میرے اور آپ کے لئے یہ ریاست بھلے سوتیلی ماں ہی ہو اشرافیہ کے لئے ممتا سے لبریزماں ہی تو ہے میں اور آپ تو بس قربانی کے بکرے ہیں چھری کے انتظار میں کھڑے بکرے! ٭٭٭٭