پاکستان زرعی ملک ہے۔ وطن ِ عزیز کی سالمیت کو اِس جْملے میں خود ساختہ خود اعتمادی سے زیادہ شاید ہی کسی اور چیز نے نقصان پہنچایا ہو۔ ملک میں زرعی زمین پر رہائشی کالونیاں بن رہیں اور بنجر زمین کو آباد کرکے ہم زراعت کر رہے ہیں۔ کسی نے آج تک رہائشی کالونی بنانے سے قبل اْس خطہ ِ زمین کی ’ایگرو انڈسٹریل اکانوی سٹڈی‘ کرنا گوارا نہیں کی۔ ہر خطہ کی اپنی ایگر و اکانومی ہوتی ہے۔ صحرا کی مختلف، بنجر زمین اور زرعی زمین کی ایگرو اکانومی بہت ہی مختلف ہوتی ہے۔ یقینی سی بات ہے کہ صحرا کی ایگرو اکانومی ’گندم‘ نہیں ہے۔ مگر ہم صحرا کی زمین پہ گندم کاشت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بنا کسی مربوط پالیسی کے ہر خطہ ِ ارض پہ گندم لگادی جائے۔ ہم سڑکیں اور موٹرویز بنا رہے ہیں۔ مگر ہم نے اْن موٹرویز کی گرین بیلٹس نہیں بنائیں۔ اگر ہم محض موٹرویز کے اِرد گرد بیلٹس کو ہی لے لیں تو لاکھوں ایکڑ اراضی پہ کھجور، آم، اَمرود، انار اور دیگر پھلوں کے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ کئی جگہوں پہ سبزیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ اَدرک، ٹماٹر اور پیاز کاشت کیا جاسکتا ہے۔ انتہائی افسوسناک اَ مر ہے کہ ہماری زرعی پالیسی قرضہ دینے والے ممالک یا پھر عالمی مالیاتی اداروں کی مرضی و منشا کے مطابق بنائی جاتی ہے حالانکہ اِس وقت ہمیں ایک حْب الوطنی کے جذبہ سے سرشار قومی پالیسی کی اَشد ضرورت ہے۔ جو وطن ِ عزیز کی خوشحالی اور زراعت کے فروغ کی پالیسی ہو۔ پالیسی میں جہاں زمین سے جڑے کسان کو شامل کیا جائے وہیں اْس کسان کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے علاقائی اور قومی ضروریات اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے حل تلاش کیا جائے۔یہ زرعی پالیسی انتہائی سادہ اور آسان زبان میں ہو جو زمین سے جڑے کسان کو فوراًََ سمجھ آجائے۔ ۔ پوری سچائی تویہی ہے کہ انگریزی زبان تو ہماری زرعی زبان ہی نہیں ہے۔ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ سینکڑوں صفحات پہ مشتمل زرعی پالیسی کی کتابوں کو کسان کیسے اور کیونکر پڑھے اور سمجھے گا؟ ہماری زرعی پالیسی تو اْردو، پنجابی، سیرائیکی، سندھی، پشتو، اور بلوچی زبان میں ہونی چاہئے اور اِس قدر عام فہم ہو کہ اَن پڑھ کسان کی سمجھ میں آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ عام کسان پیداوار کے فرق یعنی Yield Gapکو نہیں سمجھ سکتا۔ چاہے ہم لاکھوں اعدادو شمار کا گھن چکر چلائیں کہ ہم گندم میں آٹھویں نمبر پہ ہیں، چاول میں دسویں نمبر پہ ہیں وغیرہ وغیرہ مگر حقیقت میں اگر ہم واقعی اِتنے اچھے ہیں تو ہر سال ہمارے ہاں گندم کا قال کیوں پڑ جاتا ہے؟ ہمیں گندم، ٹماٹر اور دیگر اجناس باہر سے کیوں درآمد کرنا پڑتی ہیں؟ کیونکہ ہم نے آج تک کسان کو فارم منیجمنٹ یا کھیت کے مناسب انتظام کے متعلق آگاہی دینا ہی گوارا نہیں کی۔ پاکستان کی تین بڑی فصلیں ہیں۔ گندم، گنا اور چاول۔ گندم اور گنے کو حکومت ریگولیٹ کرتی ہے شاید یہی وجہ ہے ہم ہمیشہ گندم اور گنے کی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔ چاول کو آج تک ریگولیٹ نہیں کیا گیا۔ چاول اْوپن مارکیٹ میں بکتا ہے اور آج تک چاول کی قلت پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ چاول ہر سال برآمد کرکے زرِ مبادلہ کمایا جاتا ہے۔ یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے کہ جہاں بھی ہمارا بوسیدہ نظام شامل ہوتا ہے وہاں ہمارا بیڑہ غرق ہوجاتاہے۔ اِس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ہر سال گندم کے متعلق کہتے ہیں کہ ’بمپر کراپ ہوئی ہے لیکن ہرسال کے آخر میں گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اِس لئے ہمیں نظام بدل کر کسان دوست زرعی پالیسی بنانی چاہئے اور ایسا نظام لانا چاہئے جو کسان کی ضروریات اور اْمنگوں کے مطابق ہو۔ہمیں زمینی حقائق کے مطابق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اِس وقت کسان اور چھوٹا زمیندار کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔کسان کو کھاد نہیں مل رہی۔ چھوٹے کسان کو ایک شناختی کارڈ پہ ایک بوری کھاد ملتی ہے۔ دوسری بوری لینے جاتا ہے تو اْسے ’بلیک‘ میں لینی پڑتی ہے۔ ہماری ساری کیڑے مار ادویات ملاوٹ شدہ ہیں۔ جب ہم کِسان کو کھاد نہیں دیں گے، بیچ نہیں دیں گے، خالص ادویات نہیں دیں گے تو ہم کسان سے مثبت نتائج کی اْمید کیسے لگا سکتے ہیں؟ اگر کسان اِن تمام مصائب و مشکلات سے نکل کر فصل کاشت کرلیتا ہے تو آڑھتیوں پہ مشتمل ’لٹیرے پن‘ کا سپلائی چین والا نظام اْس مظلوم کسان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ آڑھتی ہی وہ آدمی ہے جو بازار میں جنس کی قیمت طے کرتا ہے۔ آڑھتی کسی سال فصل کی قیمت بڑھا دیتا ہے اور کسی سال گرا دیتا ہے۔ جس سال جس فصل کی قیمت گرادی جاتی ہے اگلے سال اْس فصل سے چھوٹے کسان کا دل اْچاٹ ہوجاتا ہے۔مثلاََ جس سال ہمارے ہاں ٹماٹر کی پیداوار زیادہ ہو تو آڑھتی اْسے مناسب قیمت نہیں دیتا اور برآمد کرنے کے لئے ہمارے ہاں بین الاقوامی سپلائی چین کا نظام نہیں۔ اِس لئے ہر صورت میں کسان ہی پِستا ہے۔ ہمیں ہر صورت میں کسان دوست سپلائی چین یقینی بنانی ہے۔ یہ وہ چند مسائل ہیں جن کا حل تلاش کیا جاناچاہئے۔ اِ ن تمام مسائل کے حل کیلئے فوراًََ کرتا دھرتاؤں کو مل بیٹھ کر چھوٹے زمیندار کو شامل کرنا چاہئے اور ایسی مربوط پالیسی بنانی چاہئے جو ملک و قوم کی فلاح و بہبود پہ مبنی ہو وگرنہ ہم خود ہی ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈال رہے ہونگے۔ کیونکہ جو ملک یا عالمی مالیاتی ادارہ ہمیں قرض دیتا ہے وہ اپنی شرائط اور فیصلوں کے مطابق ہم سے کام کرواتا ہے۔ اور یہ اب یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے کہ قرض لینے کے عوض ہم نے آج تک جتنی شرائط مانی ہیں اْن سے پاکستان کو نقصان ہی ہوا ہے۔