اسلام آباد( خبر نگار خصوصی،92 نیوزرپورٹ) مودی سرکار کی جانب سے بھارتی لوک سبھا میں پیش متنازعہ شہریت بل کیخلاف قومی اسمبلی نے متفقہ قرارداد مذمت منظور کر لی۔قرارداد وفاقی وزیر شیریں مزاری نے پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کا اقدام انسانی حقوق کیخلاف ہے ، یہ بل فوری طور پر واپس لیا جائے ۔ قومی اسمبلی میں طلبہ یونین پر پابندی ختم کرنے کے بل کی تحریک، کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی سزا میں اضافہ، آئین کے آرٹیکل 27 میں ترمیم سمیت کئی بل پیش کئے گئے ، حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے مخالفت یا حمایت نہ کرنے پر متعدد بلز قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کردیئے گئے ۔طلبا یونین پر پابندی خاتمے کے بل کی تحریک مسلم لیگ ن کے رکن کیس عمل کھیل داس کی طرف سے پیش کی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویزاشرف نے کہا کہ طلبا یونین سیاست کی نرسریاں ہیں۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف نے کہامیں خود سٹوڈنٹ یونینز کا سرگرم رکن رہا ہوں ، یونینز کو بحال کیا جائے ۔مذہبی جماعتوں کی وجہ سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی لگی۔ وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے کہاسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی ناگزیر ہے ۔ مرادسعید نے کہاوفاقی حکومت طلبا یونین بحالی پر کام کررہی ہے ،طلبا یونین تمام جماعتوں کی ضرورت ہے ،بل قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا جائے ۔ لیگی رکن بشیر محمود ورک نے مخالفت کردی اور کہابچوں کو تعلیم حاصل کرنے دیں ۔اسد عمر نے کہااگر کچھ کام طلبا یونینز نے غلط کئے تو سیاستدان بھی کچھ غلط کام کرتے ہیں، سعد رفیق اور مرادسعید طلبا تنظیموں سے ہی آئے ۔قواعد و ضوابط کے تحت طلبا یونین بحال ہونی چاہئیں۔عبدالاکبر چترالی نے کہاسپیکر صاحب آپ اسلامی جمعیت طلبا میں رہ چکے ،یونین بحال ہونی چاہئے ۔رکن کمیٹی ریاض فتیانہ نے انتخابات ایکٹ 2017ء کی شق 104 میں ترمیم کا بل پیش کیا ۔ انتخابات میں خواتین کو عام نشستوں پر5 کے بجائے 25 فیصد ٹکٹ لازمی دینے کا بل موخر کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے پیش کر دہ آرٹیکل 89میں ترمیم کا بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔اجلاس کے دور ان نیب قوانین میں ترمیم کا بل ایم ایم اے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے پیش کرنے کی تحریک پیش کی ۔ ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے کہاکہ کیا حکومت اس بل کی حمایت کرتی ہے یا مخالفت۔ پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے کہا حکومت اس بل کی مخالفت کرتی ہے ، ان کے بل کی اچھی چیزیں اپنے بل میں شامل کرلیں گے ،نیب قوانین میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہااسمبلی میں آنا میرا حق ہے جب سپیکر قومی اسمبلی رکاوٹ بن جائے تو پیچھے کیا رہ جا ئیگا،میں عدالتی فیصلے پر اسمبلی میں آیا ۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہامیں نے آپ کی درخواست پر پروڈکشن آرڈر جاری کیے ۔شاہد خاقان نے کہاجس طرح آپ اس ہائوس کے ممبر ہیں اس طرح میں بھی ممبر ہوں میں نے اس کرسی پر فخر امام،یوسف رضا گیلانی کو دیکھا ہے جنہوں نے اصولوں کیلئے کرسی چھوڑی۔رانا ثنااللہ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر شاہد خاقان واک آوٹ کر گئے ۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا شاہد خاقان خود اپنے حلقے سے ہار کر کسی اور حلقے سے جیت کر آئے ، سپیکر کو جتنی مدد اور تعاون کی ضرورت ہوگی ہم دینگے ۔خواجہ سعد رفیق نے کہارانا ثنائاللہ کا بھی حق ہے وہ اس ایوان میں آئیں آج جو ہمارے ساتھ ہوا کل کسی اور کے ساتھ بھی ہوسکتا ۔ اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے 10بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔