منگل11فروری کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تینوں بڑی جماعتوں کے اراکین نے جس انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت نے ابھی تک صرف انتخابات تک کا سفر طے کیا ہے‘ جمہوری رویوں اور تنقیدی شعور تک پہنچنے کے لئے ابھی طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔ اپوزیشن کو ’’محو انتظار حکومت‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیاست امکانات کا نام ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ آج کی اپوزیشن کو آئندہ حکومت بنانے کا موقع مل جائے۔ ایسا ہونے کی امید میں ہی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں بیٹھی ہیں۔ وہ آج بطور اپوزیشن جس طرز عمل کو رواج دیں گی ان کو اسی انداز میں اپوزیشن کی تنقید سہنا پڑے گی۔پارلیمنٹ کو ریاست کے اعلیٰ ترین ادارے کا درجہ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام کیا جائے‘ ایوان کے تقدس کا اس حد تک خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی رکن نامناسب بات کہہ دے تو اس کے الفاظ ریکارڈ سے حذف کر دیے جاتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ بدزبانی یا پارلیمانی ضابطوں کی خلاف ورزی پر رکن کو کچھ مدت کے لئے اجلاس میں شریک ہونے سے روک دیا گیا۔ دوسری طرف اراکین پارلیمنٹ کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر کھل کر ایوان میں بات کر سکتے ہیں، ان پر پابندی نہیں۔ سینٹ کی نسبت قومی اسمبلی کا ماحول زیادہ پرجوش اور گرم رہتا ہے۔ وزیر اعظم اور کابینہ کے زیادہ اراکین قومی اسمبلی سے ہوتے ہیں اس لئے براہ راست منتخب ہونے والوں کا یہ ایوان ریاستی پالیسیوں کے حوالے سے مرکز توجہ رہتا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر رقیق اور ذاتی حملے کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں ساری دنیا میں ایسا ہوتا ہے لیکن ایک اسلامی جمہوری ریاست کی قومی اسمبلی میں اراکین کا برتائو ذمہ دارانہ رویے کا مطالبہ کرتا ہے۔ چند روز ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مواخذے کی کارروائی کے لئے کانگرس کے روبرو پیش ہونا پڑا۔ ٹرمپ نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سپیکر نینسی پلوسی کی جانب سے رسمی مصافحے کے لئے بڑھایا گیا ہاتھ نظر انداز کر دیا۔ اس بداخلاقی کا جواب نینسی پلوسی نے اختتام پر صدر ٹرمپ کی تقریر کا مسودہ پھاڑ کر دیا۔ اس واقعہ کو پورے امریکہ نے دیکھا اور دونوں کے طرز عمل کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ امریکہ میں ایسے واقعات کبھی کبھار ہوتے ہیں۔ پاکستان کی حالت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں اپوزیشن اور حکومت یہ طے کر کے شریک ہوتی ہیں کہ اخلاقیات جائے چولہے میں انہیں تو اپنی تقاریر کے ذریعے مخالف کی عزت اچھالنی ہے۔ انڈرویئر اور بھینس چوری کے جھوٹے مقدمات ایوان سے باہر کی سرگرمیاں تھیں ظلم یہ ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مخالفین کو ایوان سے اٹھوا کر باہر پھینکا گیا۔ نواز شریف آئے تو بھٹو خاندان کی خواتین کے خلاف نازیبا تصاویر اور تحریروں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ میاں نواز شریف ہی تھے جن کے رفقا اسمبلی سے باہر کی نامناسب باتیں ایوان میں لے آئے۔ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کس کس طرح نہ کی گئی۔ یہ سلسلہ اس وقت کسی حد تک تھما جب پیپلز پارٹی نے مریم نواز اور کیپٹن صدر کے معاملے کو مرچ مصالحہ لگا کر نشر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفن کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کا ایک سکینڈل 1997ء کے انتخابات کے دوران سامنے آیا۔ عمران خان ایک سیاسی قوت بن کر ابھر رہے تھے۔ ان کی مقبولیت کو ختم کرنے کے لئے سیتا وائٹ سکینڈل تیار کیا گیا۔ عمران خان نے شادی کی تو ان کی نومسلم اہلیہ جمائما خان کے متعلق انتہائی قابل اعتراض لہجہ اختیار کیا گیا۔اس سارے معاملے میں پیپلز پارٹی کا رویہ سنجیدہ اور شائستہ رہا۔ شاید بے نظیر بھٹو خود ایسی قابل مذمت مہم کا شکار ہو چکی تھیں اس لئے پی پی نے اس رجحان کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔ گیارہ فروری کے روز تعجب خیز بات یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین جہاں برے انداز میں وزیر اعظم کا ذکر کرتے رہے وہاں ان کے بعض اراکین مقدس قرار دیئے گئے ایوان میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے پائے گئے۔ پیپلز پارٹی اب بے نظیر بھٹو کی اولاد کے ہاتھ میں ہے۔ کل کلاں بلاول بھٹو زرداری کی محترم بہنیں اس ایوان کی رکن منتخب ہو سکتی ہیں۔ تین سال پہلے سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایک وزیر نے اپوزیشن کی خاتون کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تو آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے وزیر کو معافی مانگنے کا کہا تھا۔ آصفہ بھٹو کی ہدایت پر موصوف نے ایوان میں معافی مانگی۔ اس عمل سے پیپلز پارٹی کی قیادت کے متعلق ملک میں خوشگوار تاثر گیا لیکن گزشتہ چند اجلاسوں سے قومی اسمبلی میں جس طرح عبدالقادر پٹیل گفتگو کر رہے ہیں اس سے ان کی پارٹی کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔ پاکستان معاشی‘ سماجی‘ خارجہ اور دفاعی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔دشمن ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ دشمنوں کی سازشیں ناکام بنانے اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے پارلیمنٹ کے اراکین سوچ بچار کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔ اراکین پارلیمنٹ حکومت کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ موجودہ اپوزیشن اس لحاظ سے کارآمد کردار ادا کر سکتی ہے کہ یہ ان جماعتوں پر مشتمل ہے جو متعدد بار حکومت میں رہ چکی ہیں اور ملکی معاملات چلانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وزیر اعظم ‘ حکومت یا کابینہ کے اراکین پر ذاتی حملے نامناسب اور عوام کے خرچ پر بری روایات کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اپوزیشن مہنگائی سے نمٹنے کے لئے حکومت کو مفید تجاویز دے گی تاکہ ملک عوام دشمن عناصر کے پیدا کردہ بحران سے نجات حاصل کر سکے۔