اپارٹمنٹ میں داخل ہونے کے پون گھنٹہ بعد ہم باہر نکلنے کو تیار تھے۔ طے پایا کہ سمندر میں چلنے والے کروز شپ کی سیر کرتے ہیں اور ڈنر کروز پر ہی کیا جائے۔رگا کے علاقے سے کروز تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ 15منٹ لگے ہوں گے۔کروز کی روانگی کا وقت ہو چکا تھا۔سرمد خان نے اس کے مالک سریر خان کو فون پر بکنگ کروا دی تھی اس لئے وہ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔طاہر علی بندیشہ نے خالی جگہ دیکھ کر گاڑی پارک کی اور پارکنگ فون ایپلی کیشن پر ایک گھنٹے کا وقت لے لیا۔ دوبئی میں ایک گھنٹہ پارکنگ کے 2درہم یعنی لگ بھگ 160روپے وصول کئے جاتے ہیں۔کوئی جعلی پارکنگ نہیں‘ نہ کوئی پرچی والا آئے گا۔پارکنگ کے لئے جگہیں مخصوص ہیں‘ گاڑی کھڑی کریں۔قریب جگہ جگہ بوتھ لگے ہیں اس میں سکہ ڈالیں یا پھر آن لائن ادائیگی کے لئے ہینڈ فون استعمال کریں۔سارا پیسہ حکومت کے اکائونٹ میں جاتا ہے۔ جن لوگوں کو اپنے ملک سے پیار ہوتا ہے وہ چوری اور لوٹ مار کا ایسے ہی راستہ روک لیتے ہیں۔دبئی میں جگہ جگہ موجود سہولیات دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے لئے ماں جیسی محبت رکھتی ہے۔ رات ہو چکی تھی۔کناروں پر ایستادہ بلند عمارتیں روشنی سے بھری ہوئی آنکھیں لئے ہمیں دیکھ رہی تھیں۔ہم جس کنارے سے سوار ہوئے وہ خاصا کشادہ علاقہ ہے۔لوگ ٹف ٹائلز پر جوگنگ کر رہے تھے۔سامنے ہی ایک پارک والے حصے میں کوئی افریقی فٹنس ٹرینر درجنوں مردوزن کو ورزش کرا رہا تھا۔کئی گورے ان کی ویڈیو بنانے میں مصروف تھے۔ایسے سمندر پاکستان کے پاس بھی ہیں جہاں گندگی ، کچرا اور تعفن کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ پچھلی حکومت نے کراچی کے دو جزیروں کو سیاحتی مرکز بنانے کا سوچا تھا لیکن سندھ حکومت نے اسے صوبائی معاملات میں مداخلت کہہ کر روک دیا۔ اب سندھ حکومت خود بھی کچھ نہیں کر رہی ۔ متحدہ عرب امارات کی لگ بھگ تمام ریاستوں میں سمندر کو نہر بنا کر شہر کے کئی علاقوں میں لے آیا گیا ہے۔یوں سمجھیں جیسے ہم نے جگہ جگہ سرسبز پارک بنا رکھے ہیں‘ دوبئی والوں نے سمندری پارک بنائے ہیں۔سامنے دوسرا کنارا نظر آ رہا تھا۔سرمد نے بتایا کہ اس کنارے پر کئی مغربی ملکوں کے قونصل خانے ہیں۔کروز اس جانب بڑھا تو ہمیں وہ عمارتیں زیادہ واضح نظر آنے لگیں۔ ہوا چل رہی تھی۔کروز کی نچلی ائیر کنڈیشنڈ منزل کی بجائے ہم کھلی چھت پر بیٹھے تھے۔سریر خان نے پاکستانی بھائی کے طور پر احترام دیا اور کروز کے اس حصے میں بٹھا دیا جو وی آئی پیز کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔پچھلی بار ایسے کروز پر ہم سے ہاتھ ہو چکا تھا اس لئے ہم نے وہاں منڈلاتے فوٹو گرافر کی فرمائش پر پوز بنانے سے معذرت کر لی۔ کیرالہ کی ایک فیملی شاید ماں باپ کی شادی کی سالگرہ منا رہی تھی۔ سادہ سی خاتون کے گرد اس کے جوان ہوتے بچے جمع تھے ۔میاں بیوی کی خوشی قابل رشک تھی ۔ سریر خان خود ایک کہانی ہے۔میں یہاں کے ہر ملنے والے سے اس کی کہانی سنتا ہوں۔ایسی کہانی کئی کتابوں پر بھاری ہوتی ہے۔ سریر خان نے بتایا کہ محبت میں ناکامی کے بعد وہ کچھ کام کاج نہیں کر پا رہا تھا۔گھر والوں نے دبئی بھجوا دیا۔ یہاں ایک ملنے والے کی کمپنی میں اکائونٹس اور دیگر مالیاتی امور کے شعبے میں کام کا موقع ملا۔ اس دوران فنانس کے کچھ مزید کورسز کئے۔ تین چار سال اسی کمنی میںکام کیا۔ ایک ساتھی نے آسٹریلین خاتون سے شادی کی اور ان دونوں نے فنانس مینجمنٹ کی اپنی کمپنی بنا لی۔سریر کو وہ اپنے ساتھ لے گئے۔کچھ رقم پس انداز کر کے ایک اور ملنے کے والے کے ساتھ کام شروع کیا‘ ایک روز اس نے دھوکے سے رقم اپنے اکائونٹ میں منتقل کرائی اور پھر لین دین سے مکر گیا۔یہ سارا کام بڑا ٹیکنیکل دھوکہ تھا۔ سریر کچھ نہ کر سکا۔اس دوران اسے معلوم ہوا کہ دبئی میں کروز کرائے پر مل رہا ہے۔سریر نے مشکل فیصلہ کر لیا اور کروز لے کر چلانا شروع کر دیا۔کورونا کے دوران سارے کروز بند ہو گئے۔ دبئی آنے والے سیاح اس سہولت سے محروم ہو رہے تھے۔حکومت چاہتی تھی دبئی کی سیاحتی رونقیں کسی طرح بحال رہیں۔سریر نے خسارے کے باوجود کروز رواں رکھا۔دبئی پولیس‘ محکمہ سیاحت اور انتظامیہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔اسے خصوصی مراعات دیں کہ وہ خسارے کا خیال کئے بنا دبئی آنے والوں کو خدمات فراہم کر رہا ہے۔ان محکموں نے اس کے ساتھ معاہدے کئے۔یوں مشکل حالات میں سے موقع کا سرا تلاش کر کے سریر خان اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا۔وہ بتا رہا تھا کہ کروز کا کرایہ 85ہزار درہم سالانہ ہے۔ یہ 68لاکھ پاکستانی روپے ہیں۔ کروز شپ پر کیپٹن اور اس کا معاون‘ کُک ‘ ویٹر اور دوسرا مددگار عملہ ہوتا ہے۔سریر خان کے ساتھ باتوں کے دوران مقامی رقاص کی پرفارمنس بھی دیکھی۔ایسی پرفارمنس ہم نے پچھلے سال اگست میں بھی دیکھی تھی ۔ کھانا تیار تھا۔بنگالی کک نے ایک کونے میں بوفے لگا رکھا تھا۔ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزار کر کروز کنارے لگا۔سریر خان پیسے نہیں لے رہا تھا۔سرمد خان نے بڑی مشکل سے اسے ادائیگی کی۔ کروز سے اترے تو ہوا اور کھانے کا خمار سا ہونے لگا۔سرمد خان نے ایک پاکستانی آئس کریم پارلر ڈھونڈ رکھا تھا۔یہاں جابجا ٹرک آرٹ کے نمونے تھے۔سلطان راہی کی ہاتھ سے بنی تصویریں تھیں،بلو آئس کریم۔دکاندار نے لکڑی کے چھوٹے سے چمچوں کے ساتھ ہم پانچ لوگوں کو دستیاب سبھی ذائقے چکھائے۔میں نے پستہ اور سٹرابری پسند کئے۔آئس کریم میںسٹرابری اور مینگو میرے پسندیدہ فلیور ہیں۔اس بار پستہ اور سٹرابری ٹرائی کیا۔ آئس کریم بہت معیاری اور خوش ذائقہ تھی۔سرمد خان‘ طاہر علی بندیشہ ‘فاروق چوہان اور عبدالستار عاصم جنہیں احباب محبت سے علامہ کہتے ہیں سبھی اپنے اپنے پسندیدہ فلیور سے انصاف کر چکے تو گھڑی نے ساڑھے گیارہ بجا رکھے تھے۔کچھ دیگر دبئی کی سڑکوں پر گاڑی دوڑانے کے بعد اپارٹمنٹ پہنچ گئے۔ ہمارے ایئر پورٹ پر جوگر جوتوں کو مشکوک جان کر ضرور تلاشی لی جاتی ہے اس لئے میں جوگر ساتھ نہیں لایا تھا۔چمڑے کے تسمے والے جوتوں میں سارا دن رہنے سے پائوں دکھ رہے تھے۔اس کا ایک حل تھا۔غسل خانے میں باتھ سیٹ پر پائوں رکھ کر میں نے ہلکا سا گرم پانی پائوں پر پھوار کی صورت چھوڑ دیا۔تھوڑی دیر بعد سکون ہوا۔دبئی کی ساری عمارتوں میں حرارت اور ٹھنڈک کا نظام خود کار ہے۔سرمد نے آتے ہی ایئر کنڈیشنر آن کر دیا تھا۔اپارٹمنٹ کے تینوں بیڈ روم اور کشادہ لائونج ٹھنڈے ہو چکے تھے۔مئی کے مہینے میں بیڈ پر ہلکی سی رضائی موجود تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ بستر پر لیٹا اور پھر کھلی ہوا‘ کھانے‘ آئس کریم اور احباب کی محبت کے خمار نے فوراً سلا دیا۔(جاری ہے)