لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ کے تدارک کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت کی، اس سلسلے میں کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا سمیت دیگرحکام عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت عدالت نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو فوری بند کرانیکاحکم دیا اور محکموں کے اسٹاف کو فوری سائیکلوں کے استعمال کی ہدایات جاری کیں، عدالت نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے پر عملدرآمد کرانے والے اداروں کوفنڈز فراہم کرنیکی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت عدالتی احکامات پر 4 ماہ میں عملدرآمد کرلے تو سموگ کا خاتمہ ہوسکتاہے۔ کمشنر لاہور نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ قصور میں فیکٹریوں اور کارخانوں کو وارننگ دے دی گئی ہے، عدالت کے حکم کے مطابق سرپرائز وزٹ کروں گا، ہم عوام کو آگاہی دے رہے ہیں کہ وہ اپنی فیملی کے نام پر پودے لگائیں، بغیر اجازت سڑکیں اورجگہیں کھودنے پر پابندی عائد کردی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ عدالت جرمانے کرتی ہے مگر ماحولیاتی افسر ساز باز کر کے جرمانہ کم کردیتے ہیں، دھواں پھیلانے والی صنعتوں کو پہلے جرمانے کر یں پھر بھی عمل نہ کریں تو مسمارکردیں،وقت آ گیا ہے کہ ڈی سی اور تھانوں میں بیٹھے لوگ باہر نکلیں، ماحولیاتی آلودگی صرف اب کسی ایک شہر، صوبے یا پورے ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ گلوبل وارمنگ کی صورت میں پوری دنیا کا اہم ترین مسئلہ بن چکی ہے، مگر افسوس اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ، اس کی ر ک تھام کے لئے مناسب اقدامات قنی بنانے چاہئیں، سموگ کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے اس ضمن میں احکامات خوش آئند ہیں، ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک عالمی اجلاس گزشتہ برس مصر میں منعقد ہوا تھا، جس میں دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق رپورٹس کا ماہرانہ جائزہ لیا گیا تھا، ان رپورٹس کے مطابق سمندر کی بلندی میں تیزی سے اضافہ، گرمی کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا اور صنعتی آلودگی سے فضائی آلودگی میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ یو این کی رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ 2050 تک دنیا کے مشہور اور یونیسکو کی فہرست میں درج گلیشیئرز کا نام ونشان مٹنے والا ہے۔ موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ گرمی جتنی زیادہ ہوگی، اثرات اتنے ہی بدتر ہوں گے، گلوبل وارمنگ پر ڈبلیو ایم او کی رپورٹ ہے کہ اب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اتنی زیادہ سطح ہے کہ پیرس معاہدے کی نچلی 1.5 ڈگری بمشکل ہی پہنچی ہے، بہت سے گلیشیئرز کے لیے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے اور پگھلنے کا عمل ہزاروں سال تک نہیں بلکہ سیکڑوں تک جاری رہے گا، جس کے پانی کی حفاظت پر برے اثرات مرتب ہوں گے، گلوبل وارمنگ کے خطرناک اثرات پر مبنی نکات نے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا لیکن پاکستان نے اس بابت کوئی توجہ نہیں دی، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی حالت تو انتہائی افسوس ناک ہے، گذشتہ برس کے سیلاب سے ہونے والی تباہی تک ہماری حکومت کی آنکھوں سے اوجھل رہی، لاکھوں افراد جو بے گھر ہوئے انہیں سماجی اداروں نے سنبھال رکھا ہے، کیا اس پر ریاست کو توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں، موسمیاتی تبدیلیوں نے جہاں دنیا کو چکرا کر رکھا ہے وہیں پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔دنیا اس پر توجہ دے رہی ہے، اپنی غلطیوں کو سدھارنے میں مصروف ہے لیکن ہم اس پت توجہ نہیں دے رہے۔ہم درختوں کی اہمیت سے ہی ابھی تک درست انداز میں آگاہ نہیں ہوسکے، ہم کارخانے بنانے میں لگے ہیں مگر ہم انہیں یہ نہیں بتاتے کہ اس کے کچھ حفاظتی اقدامات بھی ہیں جن کی ضمانت لازمی ہونی چاہیے، فیکٹریاں اپنا زہریلا فضلہ آج بھی برساتی اور سیوریج نالوں کی نذر کررہی ہیں جس سے وہ زہریلا مواد بغیر ری سائیکلنگ کے سیدھا سمندر میں جارہا ہے اور اس سے سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، ہم سمندری صفائی تک کا خیال نہیں رکھ پا رہے، ہمارے محلوں اور گلیوں میں کوڑا کرکٹ جابجا بکھرا پڑا ہے جبکہ دنیا اس کی ری سائیکلنگ سے کروڑوں کما رہی ہے، بیشتر ماہرین کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کا ڈسٹ بن بنا ہوا ہے جہاں دنیا بھر کا گند لا کر پھینکنے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس میں کسٹم ڈپارٹمنٹ انتہائی محنت سے کام کررہا ہے جو بغیر جانچ پڑتال اور ماحولیاتی اداروں کی اجازت کے بغیر ہی اسے گھر میں لانے میں مصروف عمل ہے، اس سے جہاں ہمارے ماحول کو تو نقصان پہنچ ہی رہا ہے وہیں یہ ہمارے ماحول کو بھی مزید آلودہ کررہا ہے، لیکن کسی کو پرواہ نہیں، کراچی میں کچھ عرصہ قبل جب لنڈے کے کپڑوں سے بھرے کنٹینر کو اسپرے کیا گیا تو اس سے اطراف کی آبادی میں خطرناک نتائج برآمد ہوئے، اس پر مقدمہ بھی درج ہوا لیکن معاملات جوں کے توں ہیں، مثال کے طور پر سڑکوں کی استرکاری کے فوراً بعد ہی اسے دوبارہ اکھاڑ دیا جاتا ہے، جس سے فضائی آلودگی میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے، دوسری طرف انسانی جانوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے، درخت لگانے کا عمل تو آج تک بہتر انداز میں شروع نہیں کیا گیا لیکن کٹائی کا عمل ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، اس وقت ہم آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں کہ خطرہ ہمارے سروں سے ٹل چکا ہے مگر ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کینسر سے بھی زیادہ خطرناک حد تک پھیلے گی، جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ جس کی مثال ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیماریوں پر دی ہے جہاں دست، اسہال، ملیریا، ڈینگی جیسی وبائیں اب عام ہوچکی ہیں، پانی کی قلت پر ہمارے اپنوں نے بھی الارم بجا دیا ہے مگر ہم اس پر بھی کوئی توجہ دینے کے بجائے سکون سے بیٹھ کر بانسری بجا رہے ہیں، آلودگی کے باعث سورج کی شعاعیں زمین پر براہ راست نہیں پہنچ رہیں، ہمیں اس پر بھی کوئی فکر نہیں، ہماری کاشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، ہمیں اس کی بھی فکر نہیں، ہم صرف معاہدوں پر دستخط کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پورا کردیا مگر ان معاہدوں کی روشنی میں اس پر عمل کرنے سے بالکل قاصر ہیں، اب بھی اگر موسمیاتی تبدیلیوں پر کام شروع نہ کیا تو 2050 تو بہت دور ہے 2030 میں ہی انتہائی سنگین صورتحال کا شکار ہونگے۔