گزشتہ کئی حکومتوں کی طرح موجودہ نئی قائم ہونے والی حکومت کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج ’’ معیشت ‘‘ ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران اخباری رپوٹوں کے مطابق اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ دوسری جانب ایک اور رپوٹ کے مطابق عالمی مالیتی ادارے(IMF)کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تین ارب ڈالر کے ’’ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ‘‘ کے لیے بات چیت حتمی نتیجے پر پہنچنے والی ہے۔ ساتھ ہی انہو ں نے کچھ چیزوں کی نشاندہی بھی کی جن پر انکے مطابق مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان میں ٹیکس بیس کو بڑھانا، دیکھنا کہ ہماری اشرافیہ معاشرے اور معیشت میں کیا کردار ادا کر رہی ہے، اور عوامی فنڈز کا درست اور شفاف استعمال یقینی بنانا شامل ہیں۔ بلاشبہ ان تمام مسائل پر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس بات پر حیرت ہے کہ اتنے برسوں میں اور اپنی معیشت کو اس جگہ تک پہنچا دینے کے بعد بھی ہمیں خود اس سب کی سمجھ نہیں آئی ہے کہ ان حالات میں بھی ٹیکسوں کی مد میں جو کچھ اکٹھا ہوتا ہے اس کا بڑا اور غالب حصہ غریب اور مڈل کلاس کا تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے یا بذریعہ بالواسطہ ٹیکسوں کے اکٹھا ہو رہا ہے۔ خیر درحقیقت ان دونوں خبروں کی اصل صرف اتنی ہے کہ اگر کوئی ملک سرمایہ کاری کر بھی رہا ہے تو سرمایہ کار تو کاروبار ہی کرتا ہے اور ہر کاروباری کا اصل ہدف یہی ہوتا ہے جلد از جلد اپنا سرمایہ بمعہ منافع واپس لے جائے۔ اگر تو اس عرصے میں آپکی معیشت اس قابل ہو چکی ہوتی ہے کہ اصل اور منافع کی ادائیگی کے بعد بھی اس میں جان رہ جائے تو یہ سرمایہ کاری فائدہ مند رہتی ہے بصورت دیگر یہ سرمایہ کاریاں وقتی طور پر تو بھلی لگتی ہیں لیکن طویل مدتی طور پر معیشت کے لیے بہت فائدہ مند ثابت نہیں ہوتیں۔ رہا سوال عالمی مالیتی ادارے کا تو اس میں بھی کم از کم میرے لیے خو ش ہونے کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان جس پر پہلے ہی اتنا زیادہ قرض ہے کہ اس کا صرف سود ادا کرنے کے لیے بھی ہمارے پاس پیسے موجود نہیں مزید تین ارب ڈالر قرض لے رہا ہے۔ اس سب کی حقیقت سمجھنے کے لیے کوئی بہت بڑی معاشی ڈگری کی ضرور ت نہیں ہے کیونکہ کسی ملک کے معاشی حالات پر بھی وہی اصول لاگو ہوتے ہیں جو میرے یا آپکے گھر کی معاشی صورتحال پر۔ کسی بھی گھرانے کی طرح اگر کسی ملک کے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوں تو معیشت بچانے کا واحد طریقہ قرضے نہیں بلکہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے غیر ضروری اخراجات کم سے کم کیے جائیں ، دوسرے نمبر پر آمدنی بڑھانے کے لیے جتن کیے جائیں۔ جن گھرانوں میں قرضے کے موبائل یا گاڑی لے کر یہ سوچے بغیر کہ قرض واپس کیسے کرنا ہے ’’ الحمداللہ ‘‘ کے سٹیٹس لگائے جاتے ہیں ان کا حال کیا ہوتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ قرض کی یہ اشیاء گھر کے سربراہوں کی عیاشی کے کام تو آ سکتی ہیں، لیکن بچوں کی تعلیم، صحت اور خوراک کے نہیں۔ بلکہ ان کی قسطیں بچوں کی فیسوں اور خوراک میں کٹوتی کر کے ادا کرنی پڑتی ہیں۔ قرضے لینا اور قرضے پر عیاشی کرنا نہ تو کسی خاندان کے سربراہ کے لیے باعث عزت ہو سکتا ہے اور نہ کسی ملک کے سربراہ کے لیے۔ اگر کوئی خاندان پہلے کریڈٹ کارڈ استعمال کرتا ہے۔ پھر کریڈٹ کارڈ کی قسط ادا کرنے کے لیے کسی اور بینک سے مزید قرضہ اور پر اسکی ادائیگی کے لیے مزید قرضہ حاصل کرتا جاتا ہے تو اس خاندان کا کیا حال ہو گا؟ اس وقت ہم بھی اپنے قرضوں کا سود اور اقساط ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لے رہے ہیں لیکن نہ تو اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے کوئی کوشش کر رہے ہیں اور نہ اپنے اخراجات اور ’’اللے تللے ‘‘ کم کرنے کے لیے کوئی اقدامات۔ اگر ہم گزشتہ دو دہائیوں کی حکومتوں کے بیانات اور تقاریر کا جائزہ لیں تو ان سب میں صرف ایک پالیسی مسلسل ملتی ہے وہ یہ کہ ہر آنے والی حکومت نے یہ کہنا ہے کہ پچھلی حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا تھا، اور اب عوام قربانی دیں تو یہ آسمان سے چاند تارے توڑ لائیں گے ۔ لیکن کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے کوئی مسلسل پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں۔ ہوتے ہوتے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ہمارے پاس کوئی دور رس معاشی ایجنڈا موجود ہی نہیں۔ کسی دوست ملک یا معاشی ادارے سے قرض یا امداد مل جائے تو ہم اسے ہی بڑی کامیابی سمجھ کر خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں ۔ ہماری معیشت کی کہانی اونٹوں پر لدی امریکی گندم سے شروع ہو کر ڈالروں اور کچھ دیگر مغربی ممالک سے آنے والی امداد تک پہنچی۔ پھر کئی دہائیوں تک ہم سعودی عرب، گلف ممالک اور پھر چین کی جانب دیکھتے رہے۔ اس دوران بار بار ’’عالمی معاشی مہاجنوں ‘‘ کی منتیں کرنے پر مجبور بھی ہوئے لیکن اس دوران ہم نے اپنی آمدنی بڑھانے یا اپنے طور طریقے بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجہ یہ کہ ہم کشکول توڑنے کی تقاریر کرتے کرتے اب تک 23 مرتبہ (IMF)سے قرض لے چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ شروع میں آئی ایم ایف کا بنیادی کام دنیا کی مختلف کرنسیوں کے شرح مبادلہ طے کرنا تھا۔ 1973ء میں ان الزامات کے بعدکہ یہ ادارہ ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کر تا ہے کرنسیوں شرح مبادلہ کو بظاہر آزاد کر دیا گیا اور آئی ایم ایف غریب اور ترقی پذیر ممالک کو معاشی ترقی کے لیے قرضے اور سہولیات دینے لگا۔ ان سہولیات میں تکنیکی معاونت، تربیت، مشاورت یعنی مشیروں کا تعین وغیرہ شامل ہیں ۔ جتنا قرضہ یہ ادارہ کسی ملک کو دیتا ہے اس کا بڑا حصہ ان ’’سہولیات‘‘ کے خرچے کے طور پر واپس لے لیتا ہے۔ اور سود اس کے علاوہ ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی مالیتی ادارے کے مشوروں اور شرائط کا مقصد ہماری معیشت یا عوام کی بھلائی نہیں بلکہ اس امر کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ انہیں انکا اصل بمعہ سود وصول ہو جائے۔ اسی لیے آپ کو دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ملے گا جس نے اس ادارے کی مدد سے معاشی ترقی کی ہو۔ صرف ان ممالک کی معیشت بہتر ہوئی جنہوں نے جلد یا بدیر سبق حاصل کر کے ان مہاجنوں سے چھٹکارا حاصل کیا اور بنیادی اور سادہ معاشی اصولوں کے مطابق اپنے اخراجات میں کمی، اور اپنی آمدنی خاص طور پر برآمدات کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے۔ جو ہو چکا سو ہو چکا۔ اب آگے دیکھیں۔ ایک دوسرے کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش، الزامات اور دشنام طرازیوں سے کچھ حاصل نہیں ہونا۔ جب ہم سب اس بات پر تو متفق ہیں کہ ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے تو ملک کو اس منجھدار سے نکالنے کے لیے متفق اور متحد کیوں نہیں ہو سکتے؟ اب بھی نہیں تو کب؟ نئی حکومت اور تمام سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں سے امید اور گزارش ہے کہ ذاتی مفادات، اختلافات اور بدلے کی بجائے اپنی پہلی ترجیح پاکستان اور پاکستان کی عوام کو بنائیں۔ حکمران طبقہ بھی کچھ قربانی دے، عوام اپنا حصہ تو ڈالتے آئے ہیں آئندہ بھی پیچھے نہیںرہیں گے۔