داتا دربار کمپلیکس کے گیٹ نمبر چار کے قریب پنڈال لگایا گیا تھا۔ سیکرٹری اوقاف برادرم ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے پنجاب حکومت کی ’’لہور لہور اے‘‘ تقریبات کے سلسلے میں یہاں لاہور کے تمدن و تاریخ کے موضوع پر سیمینار رکھا تھا۔ بھاٹی چوک کی طرف سے آنے والی ذیلی سڑک پر زائرین کی خریداری کے لئے بہت سی دکانیں ہیں۔ پکی پکائی دیگوں والے آگے بڑھ کر پوچھیں گے۔ پان والے ہیں ‘ الیکٹرونکس والے‘ کڑے‘ چوڑیوں اور ہاروں والے‘ چادروں والے‘ کچھ ہوٹل اور چائے خانے بھی اس بغلی سڑک پر موجود ہیں۔ ہر شخص افراتفری اور جلدی میں نظر آتا ہے‘ کسی کو وہ فرصت میسر نہیں کہ ان دکانوں کے بورڈوں اور اشتہارات کے پیچھے کی عمارتوں کو دیکھ سکے۔ کسی زمانے میں اس سڑک پر ایک تکیہ ہوا کرتا تھا۔ دوسرا تکیہ دربار کے عقب میں بلال گنج مارکیٹ والی جگہ پر بتایا جاتا ہے۔ ادھر سے ایک سڑک موہنی روڈ کی جانب جاتی ہے۔ وہاں ایک شیش محل ہوا کرتا تھا۔ اب وہ عمارت ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ خطیب داتا دربار مسجد مفتی رمضان سیالوی نے تقریب کی نظامت سنبھالی۔ تلاوت و نعت رسول مقبولؐ کے بعد ڈائریکٹر جنرل اوقاف پنجاب جناب آصف فرخ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے خطے میں مسلم صوفیاء اور علماء کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں سماجی تبدیلیوں کو بیان کیا۔ میرے بعد ممتاز صحافی اور لاہور سے محبت کرنے والے جناب واصف ناگی نے اپنی یادداشتوں اور تاریخی معلومات سے حاضرین کو مستفید کیا۔ تقریب میں سیکرٹری اطلاعات پنجاب برادرم دانیال گیلانی آخر تک تشریف فرما رہے۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے اپنے خطاب میں صوفیاء کرام ،لاہور کے تمدن اور یہاں کی علمی روایات پر بہت پرمغز گفتگو کی۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری سرکاری افسروں میں سے ایک سکالر اور ہمہ جہت علمی حیثیت والی شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں۔ پنڈال بھرا ہوا تھا۔ مائیک میرے سامنے تھا اور تاریخ میری آنکھوں میں اتری ہوئی فلم کی طرح رواں تھی‘ مجھے لگا کہ آج وہ قصہ ضرور سنایا جائے کہ داتا دربار کی بجلی کا کنکشن کس ہندو رئیس نے لگوایا۔ بات یوں ہے کہ تھوڑے فاصلے پر رائے بہادر میلہ رام کے فرزند رکن متحدہ پنجاب اسمبلی رائے بہادر سرن داس کا گھر تھا۔ داتا دربار کے ساتھ ہی سرن داس کی کاٹن مل ہوا کرتی تھی۔1918ء میں جب انفلو ئنزا کی وبا کے ہاتھوں لاکھوں لوگ مارے گئے تو ہندوستان کے لوگ بھی خوفزدہ رہنے لگے۔ سرن داس کے تینوں نوجوان بیٹے اس مرض کا شکار ہو گئے۔ لاہور کے ڈاکٹر ‘ حکیم اور حاذق دوا دیتے مگر افاقہ نہ ہوتا۔ ایک رات سرن داس کیا دیکھتے ہیں کہ سفید ریش بزرگ ان کے بیٹے کی چارپائی کے پاس کھڑے کچھ پڑھ رہے ہیں‘ اس نے چلاتے ہوئے پوچھا‘آپ کون ہیں‘ کیا کر رہے ہیں؟ بزرگ نے جواب نہ دیا‘ پھر وہ دوسرے اور تیسرے بیٹے کی چارپائی کے پاس آ کر دعا پڑھنے لگے۔ فارغ ہوئے تو جواب دیا ’’میں تمہارا ہمسایہ علی ہجویری ہوں‘ مجھ سے تمہاری تکلیف دیکھی نہیں گئی۔ انشاء اللہ بچے جلد تندرست ہو جائیں گے‘‘۔ صبح ہوئی تو لڑکوں کی طبیعت کچھ بہتر محسوس ہوئی۔ تین دن میں بھلے چنگے ہو گئے۔ ہر ڈاکٹر ،حکیم اور طبیب اس کا سہرا اپنے سر باندھنے لگا۔ رائے بہادر سرن داس نے سب کا شکریہ ادا کیا اور اصل واقعہ بیان کیا۔ پھر دربار کے متولی کو بلا کر نذر کا پوچھا۔ اس نے کہا کہ آپ کی طرف سے زائرین کے لئے کھانے کا انتظام ہوتا ہے۔ عرس پر بھی خرچ کرتے ہیں‘ کوئی بڑا اور مستقل کام کرا دیں۔ رائے بہادر سرن داس نے پوچھا: کیا دربار پر بجلی ہے۔ جواب ملا نہیں۔ آج داتا دربار پر روشنی اور ہوا کا سارا نظام سوسال پہلے سرن داس کے لگوائے کنکشن پر ہے۔ لاہور میں ہندوستان کے باقی علاقوں جیسے غیر مسلم فقیر وحشت ناک تو نہیں تھے،یہ خطہ قبل از اسلام بھی مہذب رہا ہے لیکن کبھی کبھی کسی میلے میں شرکت کے لئے ایسے پنتھ بھی آ جاتے جو انسانی گوشت کھاتے‘ خود کو خفیہ رکھنے والے ہندو فقیر بھی ہوتے‘ شاہی قلعہ کے پاس باوا جھینگر شاہ ستھرا کی سمادھی ہے۔ اس کے پیروکار ستھرے شاہی فقیر کہلاتے ہیں۔ لنگوٹی پہنے‘ گلے میں کاسہ‘ دونوں ہاتھوں میں آبنوسی ڈنڈے‘ جو ان کو بھیک نہ دیتا اسے گالیاں دیتے۔ اورنگز یب نے ان لوگوں کے لئے رعایت کا اعلان کر رکھا تھا۔ لاہور میں ناتھ جوگیوں کے کئی گروہ ہوا کرتے تھے کچھ سمادھیوںکے متولی یہی تھے۔ چھجو بھگت کی سمادھی کا انتظام داود نامی غیر مسلم فقیر کے پیروکاروں کے پاس تھا۔ یہ دائود پنتھیے کہلاتے ہیں۔ کئی غیر مسلم فقیر ایسے تھے جو نہاتے نہیں تھے‘ سر پر جٹائیں رکھی تھیں۔ کچھ ننگ دھڑنگ رہتے۔ لاہور کی اچھی بات یہ تھی کہ یہ سارے فقیر اور پنتھ بہاں موجود تو تھے لیکن شہر کے تمدن کو مسلم صوفیا نے اس حد تک پاکیزہ کر دیا تھا کہ غیر مسلم فقیر زیادہ تر اپنے ڈیروں میں سرگرمیاں جاری رکھتے۔ لاہور صرف فصیل کے اندر نہیں۔ وہ درجنوں گائوں اور مواضعات بھی لاہور بن چکے ہیں جو دو ہزار سال‘ ایک ہزار سال‘ پانچ سو سال پہلے لاہور کے مضافات کہلاتے تھے۔ کوٹ خواجہ سعید‘ اچھرہ‘ تھئے پنڈ‘ گورو مانگٹ گائوں‘ کوٹ لکھپت،کاہنہ، چرڑ، امرسدھو جیسے بہت سے تاریخی دیہات پھیلتے لاہور میں گم ہو چکے ہیں۔ برگد ‘ پیپل ‘ جنڈ‘ کریڑ، ون، بیر‘ کیکر اور گلہر مقامی درخت ہیں۔ پھر ہر دور کے فاتحین اپنے ساتھ کچھ درخت اور پھول لاتے رہے۔ تیزی سے آنے والی تبدیلیوں میں غیر ملکی حملہ آوروں اور مقامی حکمرانوں کا ذوق تعمیر‘ موسیقی‘ میلے ٹھیلے‘عبادت گاہیں،مزارات و مقبرے‘ باغات ‘ تعلیمی ادارے‘ انتظامی دفاتر‘ شاہراہیں اور منڈیاں و مارکیٹیں شامل ہیں۔ لاہور پنجاب کا دل اور پاکستان کی دھڑکن ہے۔ ہر شخص اس ’’قطب الارشاد‘‘ کو دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے ہورڈنگ بورڈ‘ سیاستدانوں کے بینر‘ بے قابو گندگی اور ہر طرف جلدی میں دکھائی دینے والا ہجوم کچھ دیکھنے ہی نہیں دیتا۔’’لہور لہور اے ‘‘ کے بہانے بھولا بسرا لاہور یاد دلایا گیا ہے۔