دنیائے علم و فضل میں ایسے ایسے بافیض لوگ پیدا ہوئے ، جنہوں نے اپنے علم و عمل اور فکر و فہم کی بناء پر ناموری کی بلندیوں کو چھوا اور دنیا نے ان کے علم و کمال کا اعتراف کیا ، زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی وہ اپنی خوبیوں کی بنا پر اہل علم کے یہاں تذکروں، تبصروں اور قلم و قرطاس کی زینت بنے ۔ میرے مربی اور شیخ حضرت مولانامشرف علی تھانوی ؒ مدفون جنت البقیع کی عظیم و ادبی شخصیت گوناں گوں کمالات و صفات سے مزین تھی ۔ ان کا ہر لفظ رس دار اور ہر تعبیر مزے دار ہوتی۔ وہ خلوص سے پڑھاتے، جو کسی بھی اہل علم کی سب سے ممتاز صفت ہوتی ہے۔ آپ ؒکا خاندان نسلوںاور پشتوں سے علم و فضل‘ دین ودیانت ‘ خدمت خلق‘ خدمت دین‘ مجاہدانہ سرفروشی‘ عزیمت و بلند ہمتی میں ممتاز ہے۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اسی خاندان کے عالی مرتب بزرگ تھے۔ایثار نفس ‘ قومی معاملات میں فرض شناسی‘ دینی کاموں میں دلچسپی ان کی زندگی کا طرہ امتیاز تھا۔حکیم الامت قرون اولیٰ کی آخری نشانیوں میں سے تھے۔ وہ اس تہذیب سے وابستہ تھے ،جس میں اپنے مذہب کی پابندی کیساتھ دوسرے مذاہب کی عزت اور شرافت ایک بنیادی پتھرکی حیثیت رکھتا ہے۔ اصول پسندی‘ وضعداری ‘ شرافت‘ سچائی اپنے نظریات پر بھر پور استطاعت میں ایک قابل فخر مثال تھے۔ انھوں نے ہزاروں کتب لکھیں مگرقلم کی آبرو کو فروخت کیانہ اسے اپنی شہرت اور معاش کا ذریعہ بنایابلکہ قلم کی عزت کو باقی رکھا۔انکے خاندان کا خمیر پاکستان کے آب و گل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خاندان کو علم و فضل ‘ اخلاق ‘ اعمال ‘ تہذیب و سیاست اور تصوف و طریقت میں بھی جامعیت نصیب فرمائی ہے۔ جامعہ دارالعلوم اسلامیہ لاہور کی بنیاد 1947 ء میں شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانیؒ نے رکھی۔ قاری سراج احمد پہلے مہتمم تھے، 1984 میں سربراہ مجلس شوری مولانا عبدالمالک صدیقی ؒنے مولانا مشرف علی تھانویؒ کو مہتمم مقرر فرمایا، حضرتؒ نے اپنے چھوٹے بھائی احمد میاں تھانوی (جو اعلی تعلیم حاصل کرنے مدینہ منورہ گئے تھے) کو پاکستان واپس بلا کر امور قرآء ت کا نگران مقرر فرمایا ۔آپ کی شب وروز محنت کی بدولت ادارے کا شمار ایشیا ء کی بڑی قرآ ت یونیورسٹیز میں ہوتا ہے۔مولانا مشرف علی تھانویؒ کی رحلت کے بعد ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی کو جامعہ کا مہتمم اور آپ کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی کونائب مہتمم بنایا گیا ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی جمیل احمد تھانوی ؒکے خانوادے کے روشن چراغ ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی کا نام ذہن میں آتے ہی دارالعلوم کی درسگاہیں و کہکشائیں نگاہوں کے سامنے جھلملانے لگتی ہیں اور یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ ماضی میں جھانکتاہوں تو علم وادب کی چکا چوند میں کھو جاتا ہوں۔ایسے میں یادوں کا انتخاب اور بیتے لمحوں کو قابو میں کرنا اور صفحہ قرطاس پر لانا میرے لیے ایک مشکل کام ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا بھولوں اور کیا یاد کر وں۔ایسا لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے، جب میں نے علمی تشنگی بجھانے کے لیے دارالعلوم میں قدم رکھا تھا،روحانیت میں ڈوبی اس بستی میں کتنے اساتذہ تھے جو علمی وراثت ہر طالب کو منتقل کر رہے تھے۔میں اس رمز سے نا آشنا اپنے ذہن میں یہاں کی خاک چھانتا رہا،دن مہینے اور سال گزرتے رہے،کب میں رسمی طور پر فارغ ہو گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی بلا کے خطیب اورمصنف ہیں،ادارہ اشر ف التحقیق انکی صلاحیتوں کا معترف۔ شخصیت کی تہوں میں ڈوب کر لعل و گہر کی تلاش ،ان کا نمایاں وصف ہے۔نمکینی اور چاشنی ان میں بلاکی ہے۔ ان میں وہ شیرینی ہے کہ ایک بار پڑھنے سے سیر نہیں ہوا جاتا۔ موضوعِ سخن شخصیت کو ہر زاویہ نظر سے دیکھنے اور دکھانے کے فن میں بڑی مہارت ہے۔ وہ دور سے نہیں قریب سے دیکھتے ہیں، ان کے قاری کو صاف محسوس ہوتا ہے کہ قلم کار کو شخصیت سے جذباتی لگائوہے۔ یہ چہرہ نگاری کا کمال ہے کہ لفظ لفظ سے سچائی کی مٹھاس، خلوص کا کیف، قربت کی حرارت، جذباتی ہم آہنگی کی لذت پڑھنے والے کو بھی بھرپور انداز میں محسوس ہوتی ہے۔ موصوف میں یہ رنگ بہت بکھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حال کے بیدار لمحوں کو قلم کے آبشار میں بہا دینا کوئی مشکل کام نہیں لیکن بیتے لمحوںاور اکابرین کے شب روز کو قلم کی نوک سے چھیڑ کر گدگدانا اور انہیں خواب گراں سے جگانا انتہائی مشکل اور دشوار کام ہے۔ذہانت و ذکاوت انہیں ورثہ میں ملی‘ مطالعہ، ذوق علمی ان کے خاندان کی پہچان ہے، علوم و فنون میں صداقت و مہارت ان کے جد امجد کا اثاثہ ‘ فکر و نظر کی بلندی معلومات میں تعمق اور رسوخ ان کے ہر خاندانی بزرگ کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ ان کی تحریر میں نسیم سحر کی لطافت ‘ پھول کی پتیوں کی نزاکت‘ شبنم کی ٹھنڈک ‘ گلابوں کی مہک، بجلی کی چمک‘ دریا کی روانی‘ لیل و نہار کا تسلسل موجود ہے۔ متانت ان کی تحریر کی جان اور موضوع کے حدود اربعہ میں رہ کر گفتگو کرنا ان کی پہچان ہے۔ ان کی تحریر نہ اس قدر خشک کہ پڑھنے والا ’’عبوسا قمطریرا‘‘کی تصویر بن جائے نہ اس قدر سنجیدہ کہ آدمی اکتانے لگے،نہ مسائل تصوف کا انبار کہ مثنوی کا تازہ ایڈیشن معلوم ہو نہ ایسا مزاح کہ اکبر الٰہ آبادی کی کلیات کی شرح ہونے کا گمان ہو ۔برجستہ ‘ برمحل لکھ لینا اور پیشگی تیاری کے بغیر بول لینا ایک انشا پرداز ارو خطیب کی ایسی خوبی ہے جو کہ ان کے مطالعہ، اخوت فکر کی بالیدگی اور نظر کی بلندی کی علامت ہوتی ہے یہ صفت ڈاکٹر خلیل صاحب میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ مرکز علم و عرفاں ہے ، جہاں ایک سے ایک بڑھ کر بزرگ ، عالم دین ، مدبر و مفکر اور صاحب فکر و نظر ، قلم کار صحافی و ادیب ایسے موجود ہیں، جنہوں نے مجھ جیسے گنوار کو بھی تہذہب سکھا دی،یہ سبھی ہمارے دلوں کے سرور اور آنکھوں کے نور ہیں۔ ماضی میںکچھ ایسے نامناسب الفاظ لکھے گئے جس پر تاحال شرمندگی اور ندامت کا احساس ہے۔وہ اساتذہ جن سے میں نے قال اللہ و قال الرسول پڑھا، انکے بارے میں کوئی جملہ بھی لکھوں یا بولوں میرے منہ میں خاک۔لمحوں کی خطائوں نے صدیوں کی سزا پائی ۔ الدکتور قاری احمد میاں تھانوی اور ڈاکٹر خلیل احمدتھانوی وہ اصحاب علم و فضل ہیں، بڑے باپ اور بڑے گھرانے کے فرزند ہیں جنکی تحریروں ، تقریروں اور تدریس سے اس عاجز کو بھی استفادہ کا بھرپور موقع ملا۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان علمی محسنوں کو جزائے خیر عطا کرے۔ ڈاکٹر اشرف علی فاروقی ،قاری رشید تھانوی اور مولانا محمد علی فاروقی کو ان کا علمی و روحانی وراثت بنائے۔ الشیخ مولانا مشرف علی تھانویؒ مدفون جنت البقیع ہم سے کیا جدا ہوئے کہ آسمان علم و کمال کا ایک باوزِ باکردار اور پیکر علم و عرفاں کا تابندہ ستارہ غروب ہوگیا لیکن اس مرد میداں کے مختلف علمی و عملی کارنامے اور حسن اخلاق کی میراث ہمارے درمیان باقی ہے ، جس کو یقیناً ہم سلیقے سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔