اسلام آباد(خبر نگار)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد نے محکمہ زراعت خیبرپختونخوا کے ملازم احمد سعید کی تنخواہ کے حصول کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت کے حالات سنگین ہو چکے ہیں، موجودہ حالات میں خیبر پختونخوا حکومت دیوالیہ ہونے کی نوبت بن چکی ہے ، ہمیں تو لگ رہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت دیوالیہ ہو جائے گی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جب کام نہیں کرتے تو تنخواہ کیوں مانگتے ہیں، معلوم نہیں کہ پشاور ہائی کورٹ کیا کررہی ہے ، ہمیں ان کے احکامات کی سمجھ نہیں آرہی۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔علاوہ ازیں عدالت عظمٰی نے پرسٹن انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ سائنس ٹیکنالوجی سندھ کے لاہور کیمپس کی بندش اورایچ ای سی کی طرف سے ادارے سے جاری ڈگریوں کی تصدیق نہ کرنے کے بارے کیس میں دوران سماعت جسٹس اعجا زالاحسن نے ریما رکس دیئے معذرت کے ساتھ لیکن یونیورسٹی نے سٹودنٹس کے ساتھ بڑا کھیل کھیلا۔ پرسٹن یونیورسٹی کی طرف سے نامی گرامی وکلا پیش ہونے پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پرسٹن یونیورسٹی لگتا ہے بڑا اچھا ادارہ ہے بڑے بڑے وکیل مقدمے کی پیروی کے لیے آئے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کہاوت ہے کہ جتنا کمزور کیس ہوتا ہے اتنے ہی اچھے وکیل آتے ہیں۔فاضل جج کے ان ریما رکس پرعدالت میں قہقہے اٹھے ۔علاوہ ازیں عدالت عظمٰی نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں اکٹھی کی گئی رقم کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔جبکہ حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ جی آئی ڈی سیس ٹیکس نہیں بلکہ فیس ہے ۔دوران سماعت عدالت نے سوال اٹھایا کہ جو سروس لوگوں کو دی ہی نہیں گئی اس کی فیس کیسے لی جاسکتی ہے ؟۔ پانچ رکنی لارجر بینچ نے جی آئی ڈی سی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایران پاکستان اور تاپی گیس منصوبوں کے بارے بھی سوالات اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ ایران پاکستان اور ٹاپی منصوبوں کی سالانہ رپورٹ پارلیمان کو پیش کی گئی یا نہیں؟،اگر نہیں کی تو وجوہات بتائی جائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جی آئی ایس ڈی کے بارے رپورٹ پیش کی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا حکومت منصوبوں کی تکمیل کیلئے سنجیدہ ہے بھی یا نہیں؟ پاکستان ایران پائپ لائن اور تاپی منصوبے کہاں تک پہنچے ؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آگاہ کیا جائے پاک ایران اور ٹاپی منصوبے کب مکمل ہونگے ۔جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ عدالت نے منصوبوں کی تکمیل سے متعلق جامع رپورٹ مانگی تھی لیکن حکومت نے تین چار لائنیں لکھ کر کاغذ تھما دیئے ۔دریں اثناء فاٹاریگولیشن سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ علاقے میں اب بھی ایکشن ان ایڈ آف سول پائور مجریہ 2011رائج ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال اٹھایا ہے جب ملک میں فاٹا ہے ہی نہیں تو فاٹا کے لئے بنایا گیا قانون کیسے اب بھی رائج ہوسکتا ہے ؟۔چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ ہمارے سامنے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا نکتہ ہے جس کا تعلق ایک طرف ریاست کی بقا اور دوسری طرف شہری آزادیوں سے ہے ، اگر ہم مطمئن ہوئے قانون اب بھی درست رائج ہے تو پھر صرف حراستی مراکز میں حراست کے دورانیے کا جائز ہ لینا ہوگا۔ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا نئے قانون کا مسودہ تیار کرلیا، لاگو کرنے کے لئے چار مہینے درکار ہوں گے ۔ جس پر جسٹس قاضی نے کہا اٹارنی جنرل کا کام قانون بنانا کب سے ہوگیا؟قانون بنانے کیلئے وزارت قانون موجود ہے ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ آئین کو چار مہینے کے لئے معطل کر دیں۔چیف جسٹس نے سماعت آج دوپہر تک ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ 2011 کے قانون میں سقم حراست کا ریویو نہ ہونا ہے ۔