اسلام آباد( خبر نگار)سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران ڈپٹی سپیکر کے اختیار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کیا ڈپٹی سپیکر بطور قائم مقام سپیکر کا اختیار استعمال کرسکتا ہے ؟۔جسٹس منیب اختر نے کہا آرٹیکل 69کے تحت سپیکر کی رولنگ کو تحفظ حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اختیار تو سپیکر کا ہے کیا سپیکر کی جگہ ڈپٹی سپیکر یہ اختیار استعمال کرسکتا ہے ؟،میری رائے میں ڈپٹی سپیکر نے اختیار سے تجاوز کیا،میرے خیال میں ڈپٹی سپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمار کس دیئے سپیکر ایوان کی کارروائی کو کنٹرول کرتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے آرٹیکل 69کا دائرہ کیا ہے ؟، جب تحریک عدم اعتمادپر ووٹنگ کا فیصلہ ہوا تو اب یا تو منظور ہوگی یا نامنظور،جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اسکی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے ، بتایا جائے سپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کیلئے کونسادن دیا، ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے ؟،رولنگ میں175اراکین اسمبلی کو مطعون کیا گیا۔چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو کہا بتایا جائے رولنگ کیسے غیر قانونی ہے ؟، سپیکر کس مرحلے پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے ؟،سپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل5 کا سہارا لیا،کوئی عدالتی فیصلہ دیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو،ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے ،اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی،پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا،اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کے وکلاء نے دینا ہے ،یہ بہت اہم معاملہ ہے ۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائک نے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے اورکہاسپیکر کا اقدام اگر بدنیتی پر مبنی اور غیر قانونی ہو تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے ، فاروق نائک نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے اور تحریک عدم اعتماد کی کارروائی مکمل کرنے کی استدعا کی لیکن عدالت نے استدعا مسترد کردی ،چیف جسٹس نے آبزرویشن دی سب کو سن کر فیصلہ کریں گے ۔ پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہاازخود نوٹس کیس کو صدارتی ریفرنس کے ساتھ سنا جائے ،پارٹی چیئر مین کی ہدایت پر عدالت کو بتارہا ہوں ہم نے عام انتخابات کی طرف جانا ہے ،تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہی مطالبہ تھا۔ چیف جسٹس نے کہا یہ سیاسی بیان ہے ، جو کچھ اسمبلی میں ہوا ہم نے اس کے قانونی پہلو کو دیکھنا ہے ،پی ٹی آئی کے کونسل اگر کوئی سٹیٹمنٹ دینا چاہتاہے ہیں تو دے دیں۔ فاروق نائیک نے کہاآرٹیکل 95 وزیراعظم پر کسی چارج یا الزام کی بات نہیں کرتا ،عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں،تمام اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ فل کورٹ بینچ بنایا جائے ۔چیف جسٹس نے کہا کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کون سے آئینی سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے ،اگر آپ کو کسی پر عدم اعتماد ہے تو بتا دیں ہم اٹھ جاتے ہیں، ایک فل کورٹ کی وجہ سے دس ہزار کیسز کا بیک لاگ ہوا، معاملہ پر آج ہی مناسب حکم جاری کرینگے ۔ فاروق نائک نے کہامجھے بینچ کے کسی ممبر پر کوئی اعتراض نہیں،آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد اور اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی،سپیکر14 دن میں اجلاس بلانے کے پابند تھے ، 25 مارچ کو اجلاس بلایا،تین اپریل ووٹنگ کے لیے مقرر تھی لیکن اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سے سوال کیا اورنکتہ اعتراض پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ جاری کر دی۔چیف جسٹس نے کہا کیا تحریک عدم اعتماد بحث کیلئے مقرر نہیں ہوئی؟۔ فاروق نائک نے کہا سپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کی اجازت نہیں دی، اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا،سپیکر کومعلوم تھا غیر قانونی قدم ہے اس لئے وہ موجود نہیں تھے ۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا رولنگ واپس ہوسکتی ہے ،رولنگ کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے ،یہ پیچیدہ ایشو ہے ۔فاروق نائک نے کہا رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں،جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا،ڈپٹی سپیکر نے رولنگ سے ارکان کو غدارقرار دیدیا،سات دن میں ووٹنگ ہوناتھی، 4 اپریل آخری دن بنتا تھا،3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی،ایوان میں اپوزیشن کے 198 ارکان موجودتھے ،تحریک عدم اعتماد تین منٹ سے بھی کم وقت میں مسترد کر دی گئی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں،آرٹیکل 5 کے سہارے بھی تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے ،پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی ہے اور کالعدم بھی،آج ہی سماعت مکمل کریں۔چیف جسٹس نے کہا دو گھنٹے آپکو سنا، تمام وکلاء دو گھنٹے میں دلائل مکمل کر سکتے تھے ،ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا فیصلے کے دور رس نتائج ہونگے ،آج ہی فیصلہ دینا ممکن نہیں۔جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کیا بحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا گیا؟، عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں پیش ہونے کی اجازت سے ، سات دن کی میعاد شروع ہو جاتی ہے ،اگر ممبران کی اکثریت کہتی ہے تحریک پیش نہ ہو تو کیا تحریک کی وقعت نہیں ہو گی؟،سپیکر نے کس رول کے تحت رولنگ جاری کی ہے ؟،کیا ڈپٹی سپیکر کو رولز کے مطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے ،رول 28 کے تحت سپیکر کورولنگ دینے کا اختیار ہے ،کیا سپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے ؟،رولنگ قواعد کے خلاف تھی تو بھی کیا اسے آئینی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا؟۔ مزید سماعت آج ہوگی۔