معروف مئورخ ڈرک کولیئر کا خیال ہے کہ تاریخ میں شیر شاہ سوری جیسے بہت کم ایسے کردار گزرے ہیں جو میکیاولی کے آئیڈیل مطلق العنان ’پرنس‘ کی تعریف پریوں پورا اترتے ہوں۔تاہم آج شیر شاہ سوری کو ہم اس کے ’میکیاولین اوصاف‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ’گورننس کے اس تصور‘کی بناء پرجانتے ہیں کہ جو اُس نے اپنے محض پانچ سالہ دور حکمرانی میں پیش کیا تھا۔ اکبر اعظم جیسے بادشاہ نے حکمرانی کے انہی اصولوں پر عظیم الشان ہندوستانی سلطنت کی عمارت کھڑی کی۔ صدیوں کے بعد انگریزوں نے برصغیر میںجدید ایڈمنسٹریشن کے ڈھانچے کی بنیاد رکھی تو شیر شاہ سوری کی انتظامی اصلاحات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ از منہ وسطیٰ کے حکمرانوں میں شیر شاہ سوری کو پہلا حکمران سمجھاجاتا ہے کہ جس کی حکومت کا تصورانصاف ، امن وامان اور عوام کی خوشحالی کے طے شدہ اصولوں پر کھڑا تھا۔ شیر شاہ وہ پہلا حکمران تھا کہ جس نے ’اختیارات کی تقسیم‘(Separation of Power)کا اصول طے کیا۔ انصاف کا ایک مربوط اور نچلے درجے تک منظم ادارہ قائم کیا ۔ٹیکس کی وصولی کا منصفانہ نظام رائج کیا۔ تاجروں اور کسانوں کو لوٹنے والی فوج کی بجائے ایک انتہائی منظم عسکری ادارہ کھڑا کیا۔شاہراہوں کے ذریعے ترسیلات کا ایسا مضبوط نیٹ ورک بنایاکہ جہاں مناسب فاصلے پر ڈاک خانے،مسافر خانے، پولیس کی چوکیاں اورانصاف کی فوری فراہمی کے لئے قاضی موجودہوتے۔ سلاطینِ دہلی ہو ں، مغل بادشاہ ہوں یا کہ ترک عثمانی حکمران، اُس دور کا چلن یہی تھا کہ بادشاہ یا سلطان کے بعد شہزادوں میں تخت کی جنگ چھڑ جاتی اور تاج وہی پہنتا جواپنے تمام حریفوں کے سر کاٹنے میں کامیاب ہو جاتا۔اس کے بعد کچھ عیش و عشرت میں ڈوب جاتے،ظالمانہ ٹیکس کی شکل میں عوام کی رگوں سے خون نچوڑتے اور ذاتی خزانے بھرتے۔ کچھ بادشاہ یا سلطان اگرچہ دیگر امور پر بھی توجہ دیتے۔ قلعے تعمیر کرتے۔ سڑکیں، پل ،مسجدیں اورمقبرے بنواتے۔محل کے باہرفریادیوں کے لئے زنجیرِ عدل لٹکواتے۔اورنگ زیب جیسا پارسا بادشاہ تو اپنی ذات کے لئے سرکاری خزانے سے ایک دمڑی تک نہ لیتا۔ خطاطی کر تا اورٹوپیاں سی کرزندگی بسر کرتا۔ آج تاریخ ان تمام حکمرانوں کو ان کے انہی شخصی اوصاف اورانفرادی کارناموں کی بناء پر جانتی ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات مگر شیر شاہ سوری اور کسی حد تک اکبر اعظم سے ہی منسوب کی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری اگرحادثاتی طور پرجنگ میں مارا نہ جاتا تو اصلاحات کی جس راہ پر وہ گامزن تھا، ہندوستان میں ہی نہیں، دنیا بھر میں قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ آج مختلف ہوتی۔ قوموں کے عروج و زوال کے باب میں متعدد سوال اٹھائے جاتے ہیں۔آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں؟ کیا ہماری قومی ناکامیوں کے پسِ پشت ہمارے گروہی مفادات پر مبنی متعصبانہ معاشرتی رویے کار فرما رہے ہیں؟ کیا جغرافیائی اسباب ہماری مشکلات کا سبب بنے ہیں؟یا کہ زوال کے اصل اسباب سے ہماری ’ لا علمی‘ ( Ignorance Theory)ہماری زبوں حالی کی وجہ بنی ہے ؟ گزشتہ پانچ صدیوں پر محیط قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو ہم جیسے معاشروں کی پسماندگی کے پسِ پشت کلیدی اسباب ایلیٹ کلچرکے خاتمے اور وسیع البنیاداداروں کے قیام میں ناکامی کو قرار دیا جاتا ہے ۔تحقیق ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ قوموں کی زندگی میںچند ایک ایسے اہم واقعات رونما ہوتے ہیں، جو ان کی تقدیر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔یورپ سات آٹھ سو سال پہلے مطلق العنانی میں ڈوبا پڑاتھا۔چودھویں صدی میں’ بلیک ڈیتھ‘ یورپ پر ایک آفت کی صورت نازل ہوئی ۔ اسی وباء نے مگریورپی تاریخ بدل کر رکھ دی۔کئی ملین انسان وباء کے ہاتھوں مارے گئے۔مزدور اور زمینوں پر جبری مشقت کرنے والے کسان مفقود ہوئے تو جاگیردارانہ نظام میں دراڑیں نمودار ہونا شروع ہو گئیں۔بادشاہی نظام بھی اپنے قدموں سے اکھڑنے لگا۔برطانیہ میں بادشاہ اور زمینوں پر قابض اس کے پروردہ جاگیر داروں کے خلاف بغاوت کسی اور نے نہیں مڈل کلاس طبقے نے برپا کی۔ جنگیں چھیڑنے اور ٹیکسوں کے نفاذ کا اختیار بادشاہ سے لے کر پارلیمنٹ کو دے دیا گیا۔ اٹھارویں اور انیسویںصدیوں میں ایک کے بعد ایک ریفارمز بلوں کی صورت جمہوری مطالبے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ادارہ جاتی اصلاحات کے نتیجے میںاِن معاشروں میں آسودگی نیچے تک پھیلی تو تعلیم کا نظام بھی مضبوط ہوتے ہوتے اگلی صدی میں پہلے صنعتی انقلاب کی بنیاد بنا۔ برطانیہ میں اٹھنے والے انقلاب کے اثرات پھیلے توفرانس کے خونی انقلاب کے بعد پورے مغربی یورپ نے بادشاہی اور جاگیرداری نظام سے پیچھا چھڑاکروسیع البنیاد جمہوری ادارے قائم کرنا شروع کر دئیے۔عثمانی سلاطین اور ہندوستان میں مغلیہ حکمران مگرپرانی ڈگر پر قائم رہے اور زوال کے راستے پر لڑھکتے چلے گئے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک ترقی یافتہ اور زوال پذیر اقوام میں تقسیم واضح ہو چکی تھی۔بیسویں صدی میں یہ طے ہو چکاتھا کہ دنیا پر حکمرانی وہی قومیںکریں گی جن کے ہاں چند ایلیٹ گروہوں کے مفادات کی نگہبانی کرنے والا نہیں،’عوامی شراکت داری‘پر مبنی نظام حکومت اوروسیع البنیادسیاسی ،معاشی اور انصاف کے مضبوط ادارے کار فرما ہوں گے۔ہم نے دیکھا کہ جاپان میں مغربی جمہوریت جبکہ چین میں یک جماعتی نظام رائج ہونے کے باوجود ہر دو ممالک نے ایک دوسرے کے مقابلے میں ترقی کی ہے۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد جب نو آبادیاتی نظام سمٹنے لگا تومحکوم قومیں آزاد ہونے لگیں۔چاہیئے تو یہ تھا کہ ہم قدرت کی طرف سے ملنے والے اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی شراکت داری کے ذریعے آزاد سیاسی و معاشی ادارے قائم کرتے ہوئے نئے قومی سفر کا آغاز کرتے۔ اس کے برعکس معاشرہ مگرایلیٹ گروہوں کے شکنجے میں پھنستا چلا گیا۔شخصی آمریت ، بد عنوانی ،سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور گروہی مفادات نے فوجی آمریت کی راہ ہموار کی۔پہلے فوجی حکمران کا استقبال عوام نے کھلے بازوئوں کے ساتھ اس امیدکے ساتھ کیا کہ ان کے حالات بدلیں گے۔کچھ ہی عرصے میں یہ مگر ایک نئے ایلیٹ گروہ کی صورت اختیار کر گئی۔ آمریت اورجمہوری ادوار ایک کے بعد ایک آتے جاتے رہے، وطن عزیز مگر آج بھی ایک جدید فلاحی معاشرہ نہیں بلکہ ایلیٹ طبقات کی چراگاہ ہے کہ جہاں مخصوص طاقتور گروہ ایک دوسرے کے مفادات کے نگہبان ہیں۔انہی ایلیٹ گروہوں کی اقتدار پر قبضے کی عشروں پر محیط کشمکش کے نتیجے میں بچے کچھے قومی اداروں میں سے بھی اکثر آج ابتری کی حالت میں بے اعتبار ہو کر اِن طاقتور گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ زوال پذیر ملکوں میںجب کوئی مقبول رہنماء نظام کو بدلنے کا نعرہ لے کر ایلیٹ گروہوں سے ٹکراتا ہے تو جلد یا بدیر وہ خود بھی اسی کرپٹ نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر پورا سسٹم ایک ہو کر اس’پولیٹیکل آئوٹ سائڈر‘ کو نکال باہر کرنے کے در پے ہو جاتا ہے ۔ معاشی اور معاشرتی علوم کے ماہرین ایلیٹ گروہوں کے اس فولادی گٹھ جوڑ کو Iron Law of Oligarchy کہتے ہیں۔