لداخ میں چین و بھارت کے درمیان تصادم کے بعد بھارت نے مذاکرات کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں ۔ چین کے لداخ اور اروناچل پردیش پر اپنا حق ملکیت جتا نے سے بھارت کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ وادی گلوان پر پہلے ہی چینی فوج کا مکمل قبضہ ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان آخری بار مذاکرات 14 اور 15 جولائی کو ہوئے تھے اس ملاقات میں ایل اے سی پر فوجیوں کو ہٹانے کی بات ہوئی تھی مگر چین نے لداخ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور بھارتی سرحد کیساتھ 40 ہزار فوجی لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر پہنچا دیئے۔ چین نے سرحد پرصرف فوج ہی تعینات نہیں کی بلکہ دفاعی سسٹم، آرٹلری سمیت دیگر اہم ہتھیار بھی پہنچا دیئے ہیں۔ بھارتی حکومت اب تک یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ مذاکرات کی روشنی میں چینی فوج ایل اے سی سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور علاقے کا کنٹرول بھارتی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم حقائق بتاتے ہیں کہ چین ایل اے سی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔ چینی فوج پیچھے ہٹنے کے بجائے فوج کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہے۔ سیٹلائٹ پر تصاویر واضح طور پر دیکھی جا سکتیں ہیں کہ مشرقی لداخ میں 5 اہم مقامات اب بھی چینی فوج کے کنٹرول میں ہیںاورچین اس علاقے میں نگرانی والی پوسٹ تعمیر کرنے کے لیے کوشاں ہے جبکہ ہاٹ سپرنگس اور گوگرا کے علاقوں کے قریب موجود ہیں ۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارتی فوجیوں کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد پیپلز لبریشن آرمی بلندی والی پہاڑیوں پر قبضہ کر لے گی۔ چند روز قبل بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے اپنے چینی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ پریہ اہم ایشو اٹھایا تھا تاہم لگتا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے اور چین اپنی فتح برقرار رکھے گا۔بھارت کے دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کا تجزیہ کہتا ہے کہ بھارتی فوج میں اس بات کی تشویش پائی جاتی ہے کہ علاقے سے فوجی انخلا کا معاہدہ ہو بھی گیا تو اس کے نتیجے میں بھارت اپنے علاقے کھو بیٹھے گا۔ چین پہلے ہی دو کلو میٹر کے علاقے میں بیٹھا ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جس کا بھارت روایتی طور پر دعوے دار، قابض اور وہاں گشت بھی کرتا رہا ہے ۔اگر مذاکرات میں یہ بات طے ہوتی ہے کہ دونوں فوجیں دو دو کلومیٹر پیچھے ہٹیں گی تو اس طرح چار کلومیٹر کا بفر زون قائم ہو جائیگا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ چار کلومیٹر بھارتی علاقہ ہوگا۔ پہلے بھارتی فوجی تاریخی طور پر پٹرولنگ پوائنٹ 14، 15، 17 اور 17 اے میں پٹرولنگ کرتے رہے ہیں۔ بفر زون کا مطلب ہے کہ اب یہ علاقے بھارت کی رسائی سے باہر ہوں گے۔ چین پانگونگ تسو جھیل کے علاقے سے انخلاء پر بات بھی کرنے کیلئے تیار نہیں۔ یہاں پر چین نے فنگر 4 اور فنگر 8 کے درمیان کے آٹھ کلو میٹر بھارتی علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ گویا بھارت کو دوہری مشکل کا سامنا ہے۔ دی ہندو اخبارکی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیں اپنے ہی علاقے سے ڈیڑھ کلومیٹر پیچھے ہٹ گئی ہیں۔یہاں پر بھارتی حکمران انتہائی پریشان ہیں کہ چین نہ تو بھارتی علاقے خالی کر رہا ہے اور نہ ہی ایل اے سی پر پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اگراس مذاکراتی اصول پر عمل کر لیا گیا تویہی حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) قرار پائے گی۔بھارت نے پوائنٹ 14پر سڑک بھی تعمیر کی تھی مگر اب بھارتی فوج اس حد تک پیچھے ہٹ چکی ہے کہ وہ اپنی سڑک بھی استعمال نہیں کرسکے گی۔ بفر زون وہ جگہ ہوتی ہے جہاں لڑائی کے بعد دونوں اطراف کے فوجیوں کا آنا جانا منع ہوتا ہے۔ یعنی اگر ہم زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو گلوان وادی ، دولت بیگ اولڈی اور اس کے ساتھ دیگر علاقے جو کبھی بھارتی عملداری میں تھے ، اور چین نے یہاں قبضہ کیا تھا تو اب ان کو علاقوں کوبفر زون قرار دے دیا گیا ہے۔ یعنی بھارتی فوج خود اپنے ہی علاقے میں نہیں جا سکتی۔ ہندوستان کے کئی موقر اخبارات میں آرٹیکلز لکھے جارہے ہیں کہ چین اور بھارت کے درمیان بفر زون قائم ہو گیا ہے۔ مگر ساتھ ہی مودی حکومت سے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ بفر زون کہاں بنا ہے۔ مودی کے پاس اس کا جواب نہیں کیونکہ یہ بفر زون گلوان وادی اور اس کے آس پاس زمین پر بنایا گیا ہے۔ بھارت کیلئے لداخ اس لئے بھی اہم علاقہ ہے کہ لائن آف ایکچوئل لداخ ریجن بھارت کیلئے پاکستانی گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا مختصر ترین اور واحد راستہ تھا جس پر اب خوفناک ڈریگن آبیٹھا ھے اور بزدل بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ بھارت کے سابقہ آرمی چیف جنرل (ر) وی پی ملک کا کہنا ہے کہ میرے ذاتی رائے میں چین اور ہندوستان کے مابین سرحدی کشیدگی کو فوجی سطح پر حل کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور سرحدی کشیدگی طویل عرصہ چل سکتی ہے۔ لداخ میں پینگونگ ٹیسو، گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں۔ لداخ پر چینی قبضہ اور فوجیوں کی ہلاکت پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ بھارتی عوام پوچھ رہی ہے کہ لداخ پر چینی قبضہ کیوں کر ہوا؟ جدید ترین اسلحہ سے لیس بھارت کی اتنی بڑی فوج نے چین کا مقابلہ کیوں نہیں کیا۔ بھارتی فوجیوں نے مار بھی کھائی اور علاقہ بھی گنوا دیا۔ اگر بھارتی فوج کی کارکردگی یہی ہے تو پھر اتنے بڑے دفاعی بجٹ کی کیا ضرورت ہے۔ اب کوئی بھارتی عوام کو کیسے بتائے کہ ان کی فوج صرف کشمیر، مشرقی پنجاب ، آسام، گورکھا لینڈ، میزورام ، ناگا لینڈ اور دیگر ریاستوں میں نہتے مسلمانوں، سکھوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف ہی رعب و دبدبہ دکھا سکتی ہے ۔ حقیقی عملی میدان میں بالکل ٹھس ہے۔